شہرِ بصارت میں نابینا پن
(نسیم شیخ کی شاعری اور تقاضا ہائے زبان و بیان)
تحریر دامن انصاری
نازِ آفرین ادب کم کوش ھی نہیں تضحیک آمیز بھی ھے – اندیشہء فکر کا ہیولہ دل ریز ھی نہیں بلا خیز بھی ھے – ماوراءے ادراک ہیں سب افکار کہ نشیب و فرازِ تعمیرِ ہست و بودِ سخن میانِ پختگی و نا پختگی اِیستادہ ھیں
مایہء صحبتِ ریشُم ھے خدا خیر کرے
ھمکو اِمکانِ تصادُم ھے خدا خیر کرے
جیسے رنج و مِحن کی آمد سرور و لذت و رامش کا پیش خیمہ ھوتی ھے بعینہ‘ نا تجرِبہ کاری استحکام کا ماوی’ ھوتی ھے
سخن است را نطقِ اِدراک کہ ایں ھمہ فکر و ھمہ جہت چہار اَطراف و اَکناف نظر می دارد ……
یہ کیا ھوا کہ رونقِ میخانہ چھین لی
بے جرعہ تو نے جرأتِ رندانہ چھین لی
بہر کیف ! عرصہء ناؤ نوش ایک سا نہیں رہتا ھمہ رنگی یک رنگی میں تبدیل ھو جاتی ھے اور یک رنگی دو رنگی کا لقمہ بن جاتی ھے – آشوبِ زمانہ کی قید سے نکلیں گے تو حسینانِ خوش نَظَرَاں کے دام میں آ پھنسیں گے – موکش نا ممکنات کا حصہ بنکر رہ جاتی ھے – بے زاویہ کے اس جبر سے نکل کر حسنِ معانی کا طِلِسم جگانا چاھتا ھوں – جھلملاتے ھوئے تاروں کی لو کو آفتاب بنانا چاھتا ھوں
دی روز کے ھوں، یا کہ ھوں حالات پرانے
جدت میں بدل جائیں خیالات پرانے
سورج بھی وہی، چاند بھی تارے بھی وہی ھیں
پھر کیسے بدل پائیں گے دن رات پرانے
آہ ! کوئی اس ناہنجار کے سخنِ بیکار مین ضربتِ کارِ فسوں کی جلوہ گری دیکھ سکے –
کا ش ! کوئی اس نا پختہ کار کے کلامِ بے عیار میں الفاظ کی خود سری کو دیکھ سکے –
پر مجھے کیا…..
کوئی ظلمت کو نور کہے یا نور کو ظلمت….. کوئی فطرت کو عادت کہے یا عادت کو سرشت …… !
یہ کس جانب روانی چاھتا ھوں
عبث میں اک گرانی چاھتا ھوں
اب میں نسیم شیخ کی کتاب موجِ نسیمی پر نظر افگنی کا خواہاں ھوں – لفظ موج کا مطلب لہر، ترنگ، تلاطم، طبیعت کی خوشی، امنگ، جوش، ولولہ، وہم، خیال، بہتات، کثرت، اور افراط آیا ھے – عربی زبان کا لفظ ھے اور مؤنث ھے –
نسیم کا مطلب ہلکی خوشگوار ھوا یا خوشبو دار چیز ھے – غیاث اللغات میں اس کی صراحت یوں ھوئی ھے…
” بادِ نرم از مدار و صراح و منتخب و چیزے کہ بوئے خوش دارد از خیابان "
ایسے یہ دو لفظوں سے "موجِ نسیم” مرکب ھوا – لیکن کتاب کا نام "موجِ نسیمی” تخلیق کیا گیا –
سوچنا اب یہ ھے کہ "موجِ نسیمی” کیا ترتیب ھوئی !
اگر ھم اس ترکیب کو معناً استعمال کرتے ھیں تو یہ ترکیب غلط ثابت ھوتی ھے – اور اگر یہی ترکیب نسبتاً مستعمل ھو تو ھر طرح سے جائز اور درست ھے جیسے نسیم شیخ نے اپنے نام کی نسبت سے کتاب کا نام "موجِ نسیمی” رکھا ھے
ھر شے کا کسی نہ کسی لحاظ سے کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی عَلاقہ ضرور ھوتا ھے – اور یہی علاقہ اس شے کو کاملیت کی سرحد تک لے جاتا ھے – ورنہ وہ شے نامکمل ھے –
اسی طرح جب کوئی موج دوسری موج میں شامل ھوتی ھے، سلسلہ در سلسلہ یہی امواج کی شکل اختیار کر لیتی ھیں اور کئی موجیں مل کر ایک بڑی موج بن جاتی ھے یعنی کثرت ھی میں وحدانیت پوشیدہ ھے – جیسے کئی دریا جب نشیب میں گرتے ھیں تو ھمارے سامنے ایک سَمَندَر موجزن ھوتا ھے –
اب ھم بارِ دگر پیکرِ موج کو چھوتے ھیں اور اس کا سہرا "نسیمی” کے سر باندھتے ھیں …..
یعنی نسیم سے تعلق رکھنے والی موج..
اب موج کو نسیم شیخ نے کن معنوں میں لیا ھے؟
لہر کے معنی میں !
ترنگ، امنگ، جوش، ولولہ، طبیعت کی خوشی کے معنوں میں ، وہم یا خیال کے معنوں میں یا پھر بہتات، کثرت یا افراط کے معنوں میں …..
میرے خیال سے نسیم شیخ نے اس ایک لفظ میں ان تمام مطالب کو یکجا کر دیا ھے – ایک لفظ مین اتنے مطالب کو.ترتیب دینا کوئی چھوٹی بات نہیں
نسیم شیخ جدید دور کے جدید شاعر ھیں – وہ موجد ھیں ان امور کے جن سے ھم باغی ھین، وہ موجد ھیں ان تراکیب کے جن کو ھم غلط تسلیم کرتے ھیں، وہ دائر ھیں ان تمام مباحث کے جن سے ھم گریز پا ھیں، وہ لازم کنندہ ھیں اس فن کے جس کا خیال کر کے ھمارے رونگٹے کھڑے ھو جاتے ھیں –
اوصاف کو عیوب اور عیوب کو محاسن میں بدلنا نسیم شیخ ھی کا کام ھے –
یعنی ھم ان کی جدت سے باغی ھیں اور وہ فنِ قیود سے…..
اب آپ اس کو تجدید تصور کریں یا بغاوت ، آپ پر چھوڑتا ھوں –
ہنوز می آیم جانبِ نسیم شیخ :
لہجے انسان کی زندگی میں سب سے اھم کردار ادا کرتے ھیں، دھیما لہجہ گدازپن کی علامت ھوتا ھے، میٹھا اور سریلا لہجہ محبت میں دلکشی کا مظہر ھوتا ھے، سرد اور ٹھنڈا لہجہ دو علامات کو ظاہر کرتا ھے ایک تو پژمردگی اور دوسرا کامل تیقن…
گرم لہجہ تین علامات کا منبع ھوتا ھے –
جوش، انقلاب اور نفرت –
سوالیہ لہجہ الجھن پیدا کرتا ھے اور اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ جاتا ھے، لیکن جوابات کا خزینہ انہیں سوالات کے دشت کا مدفن کہلاتا ھے –
استفہامیہ لہجہ ذھنِ نارسا کی رسائی کا سبب بنتا ھے –
استفہامیہ لہجہ میں جوش، انقلاب، تیقن اور دلکشی کا پہلو از خود نکل آتا ھے – مگر نسیم شیخ نے جس لہجے کی بات کی ھے وہ ھے "چاند لہجہ” –
اب چاند کی تاثیر ٹھنڈی ھوتی ھے اور وہ ھر گرم شے کو اپنے اثر کی لپیٹ میں لے لیتا ھے اور سرد اشیا کو پگھلنے سے مانع ھے –
میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ھوں کہ سرد لہجہ جذبات کی موت نہیں بلکہ یہ تو مٹھاس، محبت اور دلکشی کو ظاہر کرتا ھے – اب نسیم شیخ نے چاند لہجے کو شعری قالب میں کیسے ڈھالا ھے آپ خود ھی دیکھ لیجئیے !
سورج نے مجھ سے چاند کے لہجے میں بات کی
میں برف بن کے دھوپ میں پہروں کھڑا رہا
اب دھوپ میں برف بن کے پہروں کھڑے رہنا یہ ثابت کرتا ھے کہ تپش چاند کے میٹھے لہجے کے آگے ماند پڑ گئی –
اب برف پہ سورج کی شدت کا اثر نہیں بلکہ چاند کے لہجے (مٹھاس، نرم گوئی) کا اثر غالب آ گیا ورنہ دھوپ کے آگے برف بن کے کھڑے رہنا مشکل ھی نہیں محال بھی ھے
بعض اوقات وہ کچھ ہمارے سامنے آ جاتا ھے جس کی ہمیں توقع تک نہیں ھوتی
گاہ بگاہ اس شے کی توقع ہمیں رکھنا پڑتی ھے جو ہم سے ماورا ھوتی ھے خواہشات مجبوری بن کر رہ جاتی ھیں اور مجبوری خواہشات کا جامہ پہن لیتی ھے دھوپ کی شدت سایہ بن کر ابھرتی ھے اور گاہے وہی سایہ ہمیں جلا کر خاکستر کر دیتا ھے زندگی ھے تو موت نہیں موت ھے تو حیات نہیں – لیکن بسا اوقات زندگی اور موت یکجا نظر آتے ھیں کیونکہ ہست و نیست میں یک نفس کا فاصلہ ھوتا ھے زندگی موت کو جنم دیتی ھے اور موت زندگی کو
کیا مکاں ھے اور کون مکیں …. یہ فقط فلسفہ یا منطق نہیں بلکہ حقیقت کے عین قریں ھے
اس کارگہِ جُہد میں زندگی مکین کی حیثیت رکھتی ھے اور زندگی کنندہِ مکان …….
یعنی جہاں سانس ختم ھوئے وہاں سانس لینے والا بھی معدوم ھو جاتا ھے – مطلب یہ کہ انسان زندگی سے قائم نہیں بلکہ زندگی انسان کے دم سے ھے لیکن بات وہیں مجبوری پہ آ کھڑی ھوتی ھے اسی مجبوری کا عکس آپ اس شعر میں دیکھئیے
زندگی اوڑھے ھوئے میرا بدن چلتی رھی
اور میں سمٹا رھا اس کا مکیں ھوتے ھوئے
تاسف اور تیقن اپنے ھی اندر ھونے والے بلوے کو رام کرتا ھے اور وہی رام خود اعتمادی کو بے اعتمادی اور بے اعتمادی کو خود اعتمادی میں بدل سکتا ھے
جنگ ایک معرکہ، ایک لڑائی، ایک رن، ایک رزم، ایک کارزار، ایک نبرد، پیکار، عداوت، دشمنی، کینہ، بغض اور بیر ھوتی ھے جو کہ صف آرائی کی شکل میں ھوتی ھے
جس کے سبب طرفین میں چشم و دل و دست جذبات کے براق پہ اڑ رھے ھوتے ہیں – جنگ میں جذبات کا معکوس ھونا شکست سے دوچار ھونے کے برابر ھوتا ھے اور سب سے مشکل جنگ زندگی کی جنگ لڑنا ھوتا ھے – یہ وہ جنگ ھے جس میں ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ فہم و فراست و قیافہ شناسی و دانائی و حکمت ھی اس کے سب سے بڑے ہتھیار ھوتے ھیں جو اسے اپنے دشمن پر حاوی ھونے کا گُر سکھاتے ہیں اور جنگ میں فتح دلاتے ہیں
جنگ کچھ عرصہ بعد صلح میں بھی بدل جاتی ھے مگر نسیم شیخ زندگی کی وہ جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کی ساری عمر گزر گئی
وہ اس جنگ کا اعلامیہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں
وہ جنگ لڑتے ھوئے زندگی گزاری ھے
جو جنگ ، جنگ کی صورت لڑی نہیں جاتی
دعا ھے کہ نسیم شیخ مرقاتِ ادبِ عالیہ پہ ایسے ھی بیٹھے مسکراتے رہیں اور یونہی ادب افشانی ھوتی رھے
چند اشعار
نسیم شیخ
کے لئے


شیرینیءِ متاعِ وِلائے نسیم شیخ
موجب بہ بوئے نازِ ادائے نسیم شیخ
من حیرتم کہ جوششِ ناز آفریں شدہ
موجِ سخن، بہ گرمئ جائے نسیم شیخ
بینی کہ داشت دارومدارِ بلائے حسن
جوشِ بِناء و زورِ عطائے نسیم شیخ
رقصم بہ بزمِ معنئ صورت طرازِ شعر
دیدم ہنوز سوز و غِنائے نسیم شیخ
دامن انصاری