شہر کا شہر حریف لب و رخسار ملا
نام میرا ہی لکھا کیوں سر دیوار ملا
۔
سوچتے سوچتے دھندلا گئے یادوں کے نقوش
فکر کو میرے نہ اب تک لب اظہار ملا
۔
مشتہر کر دیا اتنا تری چاہت نے مجھے
نام گھر گھر میں مرا صورت اخبار ملا
۔
جس کی قربت کو ترستا تھا زمانہ کل تک
آج وہ شخص اکیلا سر بازار ملا
۔
میری سچائی کو اس وقت سراہا تو نے
سر پہ جب باندھ کے میں جھوٹ کی دستار ملا
۔
آنکھوں آنکھوں ہی میں لہرائیں بہاریں منظرؔ
اک شجر بھی نہ بھرے باغ میں پھل دار ملا
منظر ایوبی