شیدائے تجلی ہے پروانہ جسے کہئے
اسرار کا محرم ہے دیوانہ جسے کہئے
ساقی کی نگاہوں کا مستانہ جسے کہئے
سرشار محبت ہے دیوانہ جسے کہئے
لبریز ہیں پیمانے مخمور ہیں دیوانے
نظارہ ہے ساقی کا مے خانہ جسے کہئے
ان مست نگاہوں نے سو جام پلائے ہیں
حاصل ہے مجھے ذوق رندانہ جسے کہئے
اے ساقئ مے خانہ کچھ اور نوازش ہو
خالی ہے ابھی تک دل پیمانہ جسے کہئے
معلوم نہیں تجھ کو اے چشم تماشائی
آگاہ حقیقت ہے دیوانہ جسے کہئے
ہر گوشۂ دل میں ہے تصویر رخ جاناں
یہ دل ہے عجب کعبہ بت خانہ جسے کہئے
جس دن سے میرے دل کو آباد کیا تم نے
انوار کی جنت ہے کاشانہ جسے کہئے
دنیا کی زباں پر ہے صادقؔ میرا افسانہ
وہ بندۂ مولٰی ہوں دیوانہ جسے کہئے
صادق دہلوی