غزل
شیشۂ ساعت میں پیہم کروٹیں لیتا رہا
میں بدلتے وقت کی گردش کا پیمانہ رہا
شمع نے جل کر پریشاں کر دیا مرا وجود
تیرگی تک مجھ سے وابستہ مرا سایا رہا
دوسروں کو جو شکایت مجھ سے تھی بے جا نہ تھی
میں وہ ہوں جس کو خود اپنے آپ سے شکوا رہا
زندگی میں جانے کتنی بار آ کر ٹل گئی
وہ اجل میں راہ جس کی عمر بھر تکتا رہا
ذوق رائج کے مطابق نت نئے پہنے لباس
زیر جامہ جیسا بوسیدہ تھا بوسیدہ رہا
ایک لمحہ کو ملا تھا کیف از خود رفتگی
اک صدی سے بھی زیادہ اس کا خمیازہ رہا
غیر نے جب تک نہ آئینہ دکھایا اے شروشؔ
میرا چہرہ خود مری نظروں سے پوشیدہ رہا
محمود سروش