Sehra Main Ghatta Ka Muntazir hoon
غزل
صحرا میں گھٹا کا منتظر ہوں
پھر اس کی وفا کا منتظر ہوں
اک بار نہ جس نے مڑ کے دیکھا
اس جان صبا کا منتظر ہوں
بیٹھا ہوں درون خانۂ غم
سیلاب بلا کا منتظر ہوں
جان آب بقا کھوج میں ہے
میں موج فنا کا منتظر ہوں
کھل جاؤں گا اپنے آپ سے میں
تحسین صبا کا منتظر ہوں
اس دور میں خواہش طرب ہے
مدفن میں ہوا کا منتظر ہوں
ماضی کی سزا بھگت رہا ہوں
فردا کی سزا کا منتظر ہوں
شاید کہ وہاں مفر ہو غم سے
تسخیر خلا کا منتظر ہوں
ہاتھوں میں ہے میرے دامن شب
سورج کی صدا کا منتظر ہوں
برسوں سے کھڑا ہوں ہاتھ اٹھائے
تاثیر دعا کا منتظر ہوں
میرا تو خدا کبھی نہیں تھا
میں کس کے خدا کا منتظر ہوں
کہتے ہیں جسے نظرؔ مسافر
اس آبلہ پا کا منتظر ہوں
ظہور نظر
Zahoor Nazar