غزل
صحرا میں ہے قرار نہ صحن چمن میں ہے
جب سے دل خراب تری انجمن میں ہے
یہ برہمی جو زلف شکن در شکن میں ہے
شاید کوئی کمی مرے دیوانہ پن میں ہے
جو کارواں بھی آیا یہیں کا وہ ہو رہا
کیا جانے کیا کشش مری خاک وطن میں ہے
رگ رگ میں جیسے برق تپاں دوڑنے لگی
کوئی کشش تو قصۂ دار و رسن میں ہے
وہ بزم ناز باعث آزار ہی سہی
دل کو مگر قرار اسی انجمن میں ہے
پھولوں کو ہو سکی نہ مہ و مہر کو نصیب
جلوؤں کی جو بہار ترے پیرہن میں ہے
یہ کون تشنہ کام گلستاں میں آ گیا
بوئے شراب برگ گل و یاسمن میں ہے
شوق ماہری