غزل
صدیوں سے تھا جو درپئے آزار گر گیا
اپنا عدو وہ غازیٔ گفتار گر گیا
کپڑوں کی قید سے ہوا آزاد اس کا جسم
وہ شخص جس گھڑی سر بازار گر گیا
جب سرخیوں پہ اپنی نگاہیں ٹھہر گئیں
ہاتھوں سے اپنے آج کا اخبار گر گیا
بے خواب رہ کے سب کو وہ کرتا تھا فیضیاب
جب سو گیا تو سایۂ دیوار گر گیا
وہ زلزلہ تھا یا کہ قیامت کا سلسلہ
سانسوں کے سبز شہر کا مینار گر گیا
مایوسیوں کی فوج نے حملے کئے بہت
لمحوں کے رن میں رہبر کردار گر گیا
عبدالمتین جامی