غزل
صورت گردش حالات بدلتی ہی نہیں
اپنی محرومیٔ دل ہے کہ جو ٹلتی ہی نہیں
دل کا یہ حال کہ غم کا نہ خوشی کا احساس
اور طبیعت کا یہ عالم کہ سنبھلتی ہی نہیں
اک تمنا ہے کہ ہو جیسے رگوں میں پیوست
ایک حسرت ہے کہ جو دل سے نکلتی ہی نہیں
اب مرا ساتھ نہ چھوڑے شب ہجراں سے کہو
کتنی مانوس ہے یہ رات کہ ڈھلتی ہی نہیں
آ بتاؤں تجھے پہچان خلوص دل کی
یہ وہ مے ہے کہ جو آنکھوں سے ابلتی ہی نہیں
عزت نفس نہ کھونا یہ وہ نازک شے ہے
گر کے نظروں سے یہ کم بخت سنبھلتی ہی نہیں
بزمؔ اب اس کی وفا سے بھی نہ بہلے شاید
میری آزردہ طبیعت کہ بہلتی ہی نہیں
بزم انصاری