طبع زاد موجد ِ سخن
تحریر:قاضی دانش صدیقی
دلاور علی آزرکی شاعری میں وہ تمام خواص بعینہ موجود ہیں جو اس بازیچہء سخن وری میں شعرائے صفِ اول سے منسلک کسی بھی انفرادی حیثیت کے حامل شاعر کے تخلیقی وجدان کی عکاسی کرتے ہیں ، آزر کی شاعری انسانی جذبات و احساسات کی مکمل ترجمانی کی قائل ہے اس بات سے قطعِ نظر کہ وہ عمومی ہیں یا خصوصی ، آزر کے یہاں روایت ، جدت، عشق ، جنون، وحشت ،حیرت، ہجر ،وصال،فراق ،مصائب و آلام، غرَض یہ کہ وہ تمام مضامین جنہیں شعریت سے ملحق برتا جاسکتا ہے اپنی مکمل تابناکیوں سمیت پوشاکِ تغزّل میں ملبوس اپنے سامعین کو ورطہء حیرت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ، آزر کی شاعری وہ مصحفِ سحر انگیز ہے جو فرشِ قرطاس پر جلوہ نما اپنے قارئین کے حواث پر اپنا مثبت تاثر قائم کرچکی ہے
عشق کو دین محبت کو دعا کہتا ہے
اس پیمبر سے ملو کتنا نیا کہتا ہے
دلاور علی آزر کی شاعری سے ابھرتے تاثرات کے تناظر میں انسانی جبلت میں حواسِ خمسہ کی افادت بذاتِ خود باعثِ صد ستائشانامقام ِ منتہاپر فائز ہونے کی دعویدارہی کیوں نہ ہو ، لیکن جو انفرادیت حاسہ ء ذوق یا حسِ گویائی کے طرفدارانہ رویوں کو حاصل ہے وہ شائد ہی میرے خیال سے بچے حواسِ اربعہ میں کسی کا مقدر ٹھرے ۔ فطری طور پر اندرونی صفتِ متخیلہ سے منسلک بیرونی احساسات کی مداخلت انہیں چار حواسِ محسوسات سے عبارت ہے یاپھر یوں کہیے کہ اگر انسانی ذہن کو ایک رحمِ مادر کے مماثل تسلیم کرلیا جائے تو اس میں پرورش پاتے تخیلات کے لئے یہی حواسِ اربعہ تخم ریزی پر مامور بحیثیت خدام کے ہیں اور یہ صفتِ گویائی ان خیالاتِ نو کے لئے منصّہء پیدائش جبکہ یہ خیالات مظاہر میں صوتی پیکر لئے با مثل کسی نوزائیدہ بطونِ مادر سے بوقتِ نمودار ی فقط شورِ برہنگی کی غمّازی ہی نہیں کرتے بلکہ یہ خود نمائی کی تمنالئے پوشاکِ حرف و لفظیات کی تلاش میں آوارہ و سرگرداں مارے مارے دکھائی بھی پڑتے ہیں ۔اور یہی تو وہ صوت پیما الفاظ ہیں جو انسانی سرشت میں گویائی کا پیش لفظ ہیں یاکلام کا ماخز ، یہاں تک کہ انہیں پابند گفتگو کے لئے بمنزلہ معراج بھی کہا جائے تو میں سمجھتا ہوں اس میں قطعاََ کچھ مذائیقہ نہیں اورفی الوقت مجھے بھی غرَض یہاں اسی پابند گفتگو سے ہے جو ہیئت کے اعتبار سے مرصّع شاعری ہے یا سخن سازی
کسی کسی کو ہے تربیت ِسخن سازی
کوئی کوئی ہے جو تازہ لکیر کھینچتا ہے
شاعری کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کی تفہیم کرتے کئی انواعِ مختلف زاویے صاحبِ فہم و ادراک شخصیات نے وضع اس لئے کئے تاکہ انہیں اپنے تمام تجربات و مشاہداتِ زندگی کا نچوڑ پیش کرنے میں کہیں کوئی کوتاہی نہ برتنی پڑے چناچہ تمام ذی شعور ادبا و شعرا نے اپنی اپنی ذہنی اخترا ع و تاویلات سے مستفیض ہوکر ہی تفہیمِ شاعری کی اوریہی وجہ ہے کہ وہ ما بعد آنے والوں کے لئے نت نئی سمتیں متعیّن کرنے میں سر خرو ٹھرے، جہاں شاعر ی کو باطنی کیفیات کی لفظی تشکیل سے مماثل کسی بھی صاحبِ اسلوب شاعر کی تخلیقی قوت کے عین متوازی قرار دیا جاسکتا ہے یا پھر ظاہری احساسات کی جمالیاتی رنگینیاں اجاگر کرتی ایک ایسی صنفِ بیاں جسے اپنے سامعین کی سماعتوں پر مکمل دسترس حاصل ہو، باوجود اپنے ان دو متضاد پہلوئوں کے مابین شاعری کا سفراپنی ارتقائی منازل خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرنے میں کامیاب ابتک صرف اس لئے رہاہے کہ اس کی لگام اب بھی ان ہاتھوں میں ہے جن کاشاعرانہ شجرہء نسب بااعتبارِ تخلیقیت اساتذہ سے متصل ہے اور جو بلا تعطل شاعرانہ فہمیدگی کے لئے نو بہ نو راستے ہموار کئے جارہے ہیں
تم نے جو کہنا ہے آزر ؔ صاف کہتے کیوں نہیں
یہ علامت استعارے راستے میں راستہ
شاعری یوں تو متفّرق اجزائے اصناف سے منقّش قرطاسِ ادب پر احساسِ تلذّذ کو مرتب کرتی ایک دستاویزی تصویر ہے، جس کا لفظ لفظ چشمِ طلب گار پر کئی نظارے وا کرتے ہی انہیں چندھیا دیتا ہے مگر جو پزیرائی منطقی اعتبار سے غزل کا مقدرہے وہ شاید ہی کبھی اصنافِ دگرکے لئے احتظاظ کا باعث رہی ہو، غزل کی شستہ بیانی ، لفظوں کا درو بست، غنائیت کی آمیزش اور مضمون آفرینی یہ وہ تمام اجزائے ترکیبی ہیں جو غزل یا غزل گو شاعرکو ایک منفرد مزاجِ مرصّع ساز مہیا کرتے ہیں تا وقتیکہ وہ بذریعہ ء تازگی ء اسلوب اپنے معاصرین میں اپنی امتیازی مسند پرمتمکن ناہوجائے بقول شاعر ، رشک آتا ہے اسے فن ِسخن سازی پر
اردو غزل کی بابت بحوالہ دور ِامروزتجزیاتی نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں آج منصّہء شہود پر مندرجہ بالا اوصاف سے متصف نقش پائے رفتگاں پر گامزن چنندہ شعرا ہی دکھائی پڑتے ہیں جنہیں حرمتِ لفظ کی پائیمالی کا خوف مسلسل غزل خوانی پہ مائل کئے رکھتا ہے ٖ اور انہیں کمیاب ونایاب شعرا ئے صفِ اول میں اپنی مکمل تابناکیوں سمیت ایک منفرد اورنمایاں نام نامی اسمِ گرامی دلاور علی آزر کاہے جو آپ اپنے چہرے پر زود آفتابیاں لئے عالمِ ظہور میں جلوہ فروغ ہے
پاس ہے لفظ کی حرمت کا وگرنہ آزرؔ
کوئی تمغہ تو نہیں ملتا غزل خوانی پر
دلاور علی آزر، شخصیت کے اعتبار سے ایک خوش خُلق ،ملنسار اور معتدل مزاج کے حامل شاعرکی حیثیت سے دنیائے شعرو سخن میں آپ اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے ، اور یقینا یہی وجہ ہے کہ آزر کا حلقہء احباب شعرا و ادبا سے بڑھ کے ایک عام سخن فہم قاری تک پھیلا ہوا ہے، آزریا تو تسخیرِ خلائق کے وظائف سے بخوبی واقف ہے یا پھر کوئی غیر مرئی قوت ہے جو اس کے طلسماتی زبان و بیان میں کوئی اسمِ سحر انگیز پھونکتی ہے جس کے باعث یہ اپنے قارئین کے اذہان پر حکومت بھی کرتا ہے اور اپنے سامعین کے سینوں میں دلوں کی مثل دھڑکنے کے ہنر سے بھی واقف ہے، اس کی زود نگاہی کائینات کا سرسری معائنہ کرتے ہوئے بھی اس کی ذہانت و فطانت کی پشت پہ سوار ی کرتی ہے
یہ حدودِ ارضی و سماوی وسعتوں سے بہرہ مند ادراک کا حامل شاعر ہے جو اپنی تقلید پر مصر خلقت اور خدا کے بیچ ملاپ کا ایک باہمی وسیلہ ہے
میں ہوں جو ملا سکتا ہوں خلقت کو خدا سے
مخلوق کو تقلید اشد چاہئے میری
یہاں میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ ہر کلامِ ِبشر معائب و محاسن کے باہمی امتزاج سے ہی عالم وجود یا صفحہ و قرطاس پر نمود پزیری کی منازل طے کرتا ہے اور اپنے قارئین کے اذہان پر ایک مثبت یا منفی رائے قائم کرتا ہوا تنقیدی یا توصیفی مراتب حاصل کرنے کا اہل قرار پاتا ہے لحاظہ آزر کی شاعری میں جوجمالیاتی وفورہے وہ اس کی ذہنی اپج کا آئینہ دار ہے جو اسے وہ بلندی عطا کرتا ہے جس کا تصور بھی اپنا عمومی اذہان سے مبرا گزر رکھتا ہے ، آزرکی شاعری کے بغور مطالعے سے کھلتا ہے کہ اس کے یہاں مضمون نگاری منتشر خیالاتِ کثیر کی محتاج نہیں بلکہ اس کے یکسر برخلاف ، انشاء پردازی اپنا ایک منفرد اور مخصوص انداز لئے مرصّع سازی بناوٹ یا ہیئت کی فیضیابی سمیت اس کے کلامِ تغزل میں ایک یا ایک سے زائد کلیدی الفاظ کی تفہیم و تفسیر کے ساتھ مطلع تا مقطع اپنا تجزیاتی دائرہ حدود سے لامحدود امکانات تک فراخ کرتی ہے اور جس خوبی کے ساتھ آزر ایک لفظ کی بنیاد پر اپنی مکمل غزلیاتی عمارت کو تعمیر کرتا ہے وہ یقینا اپنی مثال آپ ہے ،
ہم کو پڑتا ہے ہمارے راستے میں راستہ
آسماں پر د و ستارے راستے میں راستہ
جانے و ہ منزل کہاں جو خواب سے تعبیر کی
ڈھونڈتا آیا ہوں سارے راستے میں راستہ
درمیاں کوئی نہیں کوئی نہیں کوئی نہیں
تم ہمارے ہم تمہارے راستے میں راستہ
غور سے سنتے رہو بس اپنے ہی قدموں کی چاپ
لحظہ در لحظہ پکارے راستے میں راستہ
یہ بدلتی صورتِ افلاک کیا کہتی ہے پوچھ
یہ کنائے یہ اشارے راستے میں راستہ
تھک رہی ہیں خواہشیں یہ کیا سفر در پیش ہے
جل بجھے ہیں خواب سارے راستے میں راستہ
کون سی منزل پہ لے جائے ہمیں نقشِ قدم
کون سی گھاٹی اتارے راستے میں راستہ
تم نے جو کہنا ہے آذر صاف کہتے کیوں نہیں
یہ علامت استعارے راستے میں راستہ
پھینکو نہ یوں ہی کم نظروں سنگ ہوا میں
اڑتے ہیں پرندے بھی اسی تنگ ہوا میں
پھیلا مری آواز کا جاد و سرِ دنیا
بکھرا مرا شیرازہ ء آہنگ ہوا میں
رکھیے انہیں موسم کی شکستوں سے بچا کے
پھولوں کو نہ لگ جائے کہیں زنگ ہوا میں
دو چند ہوئی جاتی ہے تعمیرِ سماعت
چلتا ہے ہوائوں کے کوئی سنگ ہوا میں
ممنون رہے گا مرے الفاظ کا پیکر
کرتا ہے وہ آواز مری رنگ ہوا میں
ہوتا ہے کوئی اور ہی لفظوں کا دروبست
بنتا ہے کوئی او ر ہی آہنگ ہوا میں
آذر مجھے تخلیق کی وہ سطح ملی ہے
تصویر بنا سکتا ہوں نیرنگ ہوا میں
میں سمجھتا ہوں آزر کے یہاں اس کے تشخص کا اظہار ہی وہ اولین زینہ ہے جو اس کی شاعرانہ رفعتوں کا ضامن ہے ، جسے برتنے کے لئے وہ نت نئے استعارے کنائے یا تلازماتی کیفیات سے معطر اور خوش رنگ پہلو تراشنے کا ماہر تراکیب و مرکبات سے آراستہ و پیراستہ اپنے باطنی خیالات و احساسات کو ظاہری حرف و لفظیات میں ڈھالنے کے فن میں یدِ طولی رکھتا ہے، اور اس ضمن میں آئینہ بحیثیت استعارہ اس کے اپنے وجود کا تفہیمی تقابل کرتے بطور تلازمہ کثرت کے ساتھ مستعمل نظر آتا ہے جس کا برملا اظہار آزر کا ہی خاصہ ہے، اشعار دیکھئے
ہمارے بارے میں آئینے سے کرو معلوم
اسے خبر ہے کہ ہم کتنے روپ دھارتے ہیں
بظاہر دیکھئے تو یہاں شاعر کا بیباک طرزِ بیاں کئی روپ دھارتا ہوا منفی پہلوکی عکاسی کرتا نظر آتا ہے جس کی خبر آئینے کو بھی ہے اور جو اس سے چاہے معلوم کرے مگر جوں ہی شعر کی سطحی پرت ، ناخنِ افکار کھرچنے پر مائل ہوئے شعریت کا ادراک اپنے رقیق اور عمیق مطالب کے ساتھ امڈ آیاجہاں آئینے کی موجودگی میں شاعراپنے چہرے کے تغیراتی عمل یا بے ثباتی پر نالشی رویہ اختیار کئے ہر بارہی کوئی تازہ نیا اور مختلف روپ دھارتا دکھائی دیا جو اس کے چہرے یا اس کی ذات کی تشکیلِ نوکی ایک کاوشِ مسلسل پر دلالت کرتاہے
کوئی نہ کوئی ہوگا پسِ پیشِ نظر بھی
دیکھوں گا کسی روز میں آئینہ الٹ کر
یہ شعر دیکھئے شاعر کی تخلیقی قوت کی مکمل تصویر کشی کرتا ہوا معنویت سے لبریز، ایک ایسا اچھوتا اور دلفریب مضمون جسے اساتذہ نے بھی شاید خال خال ہی آزر سے پیشتربرتنے کی سعی کی ہو۔ فنی اعتبار سے یہاں مصرع اولی میں اضافت استعارہ کا نہایت عمدگی سے استعمال کرتے ہوئے استعارہ تخیلہ کو استعارہ بالکنایہ کی جانب دوچندمضاف کیا گیا ہے جس کے سبب مصرع اولی میں ابہام کی کیفیت در آنا واجباًشعوری ہے اور یہ ہنر مندی آزر جیسے کہنہ مشق شاعر کی ہی زیبا ئش ہے یہ سلیقہ اور یہ کاریگری ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں جبکہ اس شعر کے مفہوم کو ادراک کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ایک عجیب تحیر آمیز معنوی ارتفاع جلوہ افروز نظر آتا ہے جہاں شاعر کی نظر اپنے پس و پیش یکساں اورمتوازی ہے جس کے سبب شاعر اپنی ذات کو بصورت عکس خیال کرتا ہوا خود کو آئینے کے بھیتر سے باہر کی جانب دیکھنے کی جستجو لئے فنافی الذات ہوکر آئینہ الٹنے کے عوض اپنے حقیقی وجود سے اتصال کا خواہش مند ہے
میں بدلتا ہوں فقط آئینہ
آئینہ شکل بدلتا ہے یہاں
اس شعر میں چند جمالیاتی رنگینیوں کی آمیزش کے ساتھ اس کی تفہیم کی جائے تو میں سمجھتا ہو ں نشہ دو آتشہ ہوجائے ، چونکہ یاں آئینہ بدلنے سے شاعرکی مراد اجنبی اور شناسا افراد کی ایک بہتات ہے جن سے بامثل آئینہ عمرِ رفتہ کی تگ ودو میں کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ رہتا ہے یاپھر واسطہ پڑجاتا ہے اور یہی تووہ اشخاص ہیں جو زندگی کے سفر میں مشترکہ طور پر شادمانی اور غم کا موجب ہیں یہی وہ لوگوں کا ہجوم ہے جن کی شکلیں بصورتِ آئینہ بدلتی رہیں جبکہ شاعر انہیں آپ بدلتا رہا کسی نہ کسی آئینے کی مثال، ایک اور شعر دیکھئے
اس سے بڑھ کر شکست کیا ہوگی
آئینے سے فریب کھا لیا ہے
ذرا اس شعر کا احوال بغور ملاحظہ ہو یہاں حیرت کا وہ عالم ہے جو تصور سے ماورا ایک ایسی منظر کشی پہ مائل ہے جس کا بظاہرشجرء نسب احاطہء ناممکنات سے ہے ،جہاں شکست پزیری یا انہدام سے فاضل رنج آپ اس آئینے کے فریب میں آنا ہے ، اس مقام پر آئینے سے فریب کا حصول استعاراتی طور پر خواہشِ طبعی کا انحطاط ہے یا خود پسندی کا زوال ، اب اگر آپ کی حسِ لطیفِ حذاقت آپ کی قوتِ سماعت سے ہم آہنگ ہے ، توہی آپ یہاں شاعر کی اپنی ہزمیت پرگونجتے بے نیازانہ قہقہوں کی چہکتی کیفیات کا حظ اٹھا سکتے ہیں ، وگرنہ وقوف کیجئے۔
آزر جہاں شاعری میں آئینے کو مستعار لایاہے اپنی ذات کے مد مقابل تلازماتی اظہار کے لئے وہیں وہ اپنے وجود کی تفہیم کے لئے خواب کی طلسماتی رزم گاہ سے لے کر حصولِ تعبیر تک رسائی حاصل کرنے کا متلاشی بھی ہے ، آزر یا کوئی بھی اور شخص جو ذرا بھی تحقیقی شعور رکھتا ہے وہ فطری طور پراپنے روبہ رو کسی غیر کی مثل خود اپنے وجود کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے وہ کسی بیگانے کو دیکھتا ہے بنا کسی توسط کے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا صرف خیالی یا تصوراتی طور پر ہی ممکن ہوسکتا ہے چونکہ ہر شخص حالتِ بیداری میں اپنا آپ دیکھنے کے لئے یا تو آئینے کا محتاج ہے یاپھر عالمِ خواب ایک نیند بھر ی حد تک اس کی ذہنی تشفی کا باعث ہے ان دو صورتوں کے سوا اپنی خواہشوں سے استفادہ و استفاضہ قبل از محال ہے اور آزر کے یہاں دیکھئے جابجا اس کا اظہار نظر آتا ہے
اشعار دیکھئے
یہ خواب کسی طور نہیں کھلنے پہ آتا
اڑتی ہے کہیں خاک بہت دشت سے ہٹ کر
کوئی اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے
ایک سورج ہے جو مشرق کو ڈھلا جاتا ہے
اک اور خواب آ گیا اس نیند کے طفیل
اک اور راہ مل گئی اس رزم گاہ سے
اس ایک خواب نے کی اس طرح مری تشکیل
بدن بدلتا رہا پیرہن بدلتا رہا
خواب کی تعبیر چونکہ معنوی طور پر استعاراتی ہوتی ہے جو اپنے متن اور مفاہم کے اعتبارسے مناظرِ رویا میں تحیر، پر اسراریت ،تجسس ،یا نامکمل خدو خال کی ایک مبہم تاویل کے ذریعے اسے مدلل بنانے کی سعی کرتی ہے، مگر میں سمجھتا ہوں خواب انسان کی شعوری کیفیت یا حالتِ بیداری کو آئینہ بناتا ہوا آپ ایک لاشعوری احساساتِ خفتگی سے متصل ایک مکمل وکامل عکس ہے جو اپنی وسعتوں کے شایانِ شان شاعرانہ وجدان سے ہم آہنگ ہوکر دوگناہوجاتا ہے جو اپنے دامنِ افکار میں کون ہے؟ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ جیسے کئی فلسفیانہ سوالت اٹھائے اس عالم ناپائدارکی خاک چھانتے ہوئے مقامِ قیام و ثبات کی تلاش میں سرگرداں، تغیراتِ زمانی و مکانی سے مسلسل برسرپیکار ہے لیکن جس کے تمام جوابات جزوی طور پر اب تلک ادھورے ہیں یا نامکمل
کہاں ہیں منبر و محراب و بام و در آزر
دیارِ یار کا نقشہ بھی کچھ دماغ میں ہے
آزر کی یہاں اس کی ہرتازہ کاوش ایک نئی نویلی دنیا کو تخلیق کرنے کا وہ عمل ہے جس کے ذریعے وہ نت نئے اچھوتے مناظر کشید کرتااسے صفحہء احساس پر بصورتِ اشعار درج کرنے کا متمنی ہے آزراپنی قوت متخیلہ سے جو دنیا وکائینات بھی تخلیق کرتاہے اس میں ہر موجودہ شے کو مکمل اختیارات سے متّصف اور بہرہ مندکرتے ہوئے آپ اپنے کاندھوں پر بالعموم یہ بارِ کائینات اٹھائے بالخصوص اپنے بعد اس ذمہ داری کے اہل کی تلاش اور جستجو کی فراہمی کو یقینی بھی بناتا ہے ،
شانوں پہ کس کے آئے گا یہ بارِ کائینات
ابتک تو خیر میں ہوں پر آئندہ کون ہے (کیمیا)
آزر کے اس تخلیق کردہ چمن زار میں تو غنچہ غنچہ کوئی موسیقار ہے ڈالی ڈالی ہے رقاصہ ، یہ وہ وادئیے طلسمات ہے جاں پتھر بولنے لگ جائیں ، اشجاربھی چلنے لگ جائیں ، خوشبو بھی دکھائی دینے لگے ، منظر بھی سنائی دینے لگے ، جاں ندیاں باتیں کرتی ہیں ، اور خنک ہوا سے کہتی ہیں ، جو قطرے سیپ میں سوئے ہیں ، وہ موتی ہم نے پروئے ہیں، خیر بات کہیں اور نکل گئی عرض تویہ ہے کہ آزر ایک پختہ کار اور مشّاق سخنور ہے جو حقیقتا اردو ادب میں ایک مفید اضافہ ہے جس کی یک کے بعد دیگرے معرکۃالآرا تصانیف "پانی،مآخذ اور کیمیا” سے کشید کردہ یہ انتخاب اپنے معاصرین کے لئے ایک واضح ہدف متعین کرتا ہے جبکہ راقم الحروف بہ نفس نفیس اس بات کا شاہد ہے کہ عبوری طور پر داخلی و خارجی کیفیات کے ابلاغ کے لئے شاعری صرف انسانی سرشت کی آئینہ دار ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کے شاعر کے شاعرانہ تشخّص کی خالقِ مجازی بھی ہے، در حقیقت کسی بھی سخن ور کی سخن آرائی ہی اس کی شخصیت کے تمام باطنی و ظاہری معائب و محاسن کا حتمی اظہار ہے جوکہ اس دعوے کے مقابل کسی شفاف پانی کی ان گداز بوندوں کی طرح ہے جو اپنے ماخذسے ہی اپنے کیمیائی توازن کو برقرار رکھتی ایک روشن اور واضح دلیل ہے، جبکہ آزر کے یہاں یہی شاعرانہ حس ناطقہ ظرافت آمیز رویہ اختیار کرتے ہی اپنے موجودہ مزاجِ لطیف سے منسلک علم عروض کے آئین وقوانین کی پاسدار ی پر قائل قرطاسِ ادب پر بصورتِ حرف وسخن اس کی ذہنی یا اختراعی دنیائوں کی تشکیل نو سے منعکس اس کے تخلیقی وجدان کاایک تعمیری انعکاس ہے ، آزر کا شعری سفر بدستورپانی کے اس دھارے کی طرح رواں دواں ہے جو اپنے ماخذ سے ہی ایک تحیر انگیز اورمنفرد کیمیائی تاثیرلئے اپنے گرد و پیش تمام نباتات و جمادات کی سیرابی کا باعث ہے،
ان عناصر سے نہ جانے کیا خطا سرزد ہوئی
پانی پانی ہوگئے گِل کی طرف جاتے ہوئے
آزر کی معرکۃ الآراء تصانیف "پانی، مآخذ اور کیمیا” جہاں آزر کے شاعرانہ تشخّص کے ابلاغ کی معاونت کرتے ہوئے اس کے داخلی اور خارجی تجربات و مشاہدات کے نظریاتی تجزئے کا ایک برملا اظہار ہیں ، وہیں آزر کے تخلیقی تسلسل کی یہ ایک اور اعترافی کڑی بصورت انتخاب "بعنوان تمثال گر” آزر کے مکاشفاتی مزاج کا ایک مکالماتی مکتوب ہے جو حقیقی اور غیر حقیقی فلسفہء حیات کے مابین تشکیک اور یقین کی منزلوں تک رسائی کی اہلیت کی آزمائش کا خواہا ہے اور جس کا انتخاب میں سمجھتا ہوں اسامہ امیر شیخ اور محمد اورنگزیب کے لئے اعزازی طور پر ایک سرشاری کا باعث ہے ، اشعار ملاحظہ کیجئے
جب تک ترے روضے پہ نظر رکھے رہیں گے
ہم دیکھتے رہنے کا ہنر رکھے رہیں گے
سائے کو شامل ِ قامت نہ کرو آخرکار
بڑھ بھی جائے تو یہ گھٹنے کے لئے ہوتا ہے
پیڑ مبہوت ہوئے دیکھ کے اس منظر کو
دھوپ جب اس کے اشارے سے نکل کر آئی
شکلیں بدل رہی ہے بتدریج یہ ہوس
بچپن میں شعلہ رو تھی جوانی میں آگ ہے
کمال یہ ہے مجھے دیکھتی ہیں وہ آنکھیں
ملال یہ ہے انہیں دیکھنا نہیں آتا
چاروں اطراف مرے آئنے رکھے گئے تھے
میں ہی میں اپنے اندر سے نمودار ہوا
دیکھتا ہوں میں اسے خود سے جدا ہوتے ہوئے
سوچتا ہوں و ہ مرے ساتھ کہاں تک جاتا
خواب دیکھا ہے کہ آپ آتے ہیں ملنے مجھ سے
شک کوئی آپ کے بارے میں نہیں ہوسکتا
جیسے ہر ایک ٹوٹتی شے ہے مرا وجود
جیسے یہ کائینات مرے گھر کی چیز ہے
جب کچھ بھی نہیں مل سکا رستے میں تو اک دن
ہم بادیہ پیمائوں نے صر صر سے بھری آنکھ
حد ادب کی بات تھی حد ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا اس نے کہا کہ جائیے
سوچنے والو سمٹ آیا سبھی ذرے میں
دیکھنے والو جہاں چارو طرف پھیل گیا
خدا نخواستہ سجدے اثر سے خالی ہوں
خدا نخواستہ روشن نہ ہو جبیں میری
ایک ہی شخص سے ملا ہوں میں
جس کی ہاں ، ہاں تھی اور نہیں نہیں تھی
اس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کردے
محفل ِ رنگ میں آیا ہوں اس امید کے ساتھ
عین ممکن ہے مجھے حال سنانے دیا جائے
دیکھنے والے اترتے ہیں کسی منظر میں
سوچنے والے عذابوں میں اتر جاتے ہیں
آ جائوں گا سمجھ میں سہولت سے آپ کی
مشکل نہیں ہوں میں بہت آسان شخص ہوں
رستے پہ حادثہ مجھے پیش آیا عشق میں
نقصان الگ ہوا مرا تاخیر الگ ہوئی
بدن کی قید سے باہر نکلنا ہے تجھ کو
پہاڑ کا ٹنا مشکل ہے دوست ، جان لگا
کوئی تو ہے جو آسماں پر بھی
پڑھ رہاہے درود میرے لئے
ورنہ یہ بولنے بھی لگ جائے
آئینہ مجھ سے فیضیاب نہیں
کیا وہ صورت نہیں وہی صورت
کیا اسے دیکھنا ثواب نہیں
خود سے ملنے کی آرزو ہے مجھے
کیا کوئی انتظام ہے مرے دوست
تم حسن ہو دیوار و در و بام کےاندر
میں عشق ہوں رستے میں خرد مل گئی مجھ کو
کھلا کیسا عجیب منظر اٹھایا جانے لگا ہے لنگر
جزیرہء دل سے بحرِ جاں میں اتر رہا ہے جہاز اس کا
کس کو معلوم ہیں راہ کے پیچ و خم تم سمندر میں ہو اور ساحل پہ ہم
تم کہاں جائوگے زورقِ موج پر ہم کنارے کنارے کہاں جائیں گے
اپنی تعظیم لازمی ہے مجھے
دفن ہیں میرے رفتگاں مجھ میں
دیکھ لیتا نگاہ بھر اس کو
اس قدر تاب ہی کہاں مجھ میں
اس کی آنکھیں دیکھنے والو تم پر واجب ہے
شکر کرو اس دنیا میں کچھ اچھا دیکھ لیا
سر اگر ہو رہے تو رائی ہے
سر نہ ہو تو پہاڑ ہے دنیا
میں روح پھونکنے آیا ہوں خشک مٹی میں
روا روی میں یہ گارا نہیں بنانا مجھے
التجا ہے کہ یہ دیوار گرا دی جائے
آپ سے کوئی شکایت نہیں کرسکتے ہم
بولتے ہی بولتے چپ لگ گئی تصویر کو
دیکھتے ہی دیکھتے رنگوں پہ تالے پڑ گئے
تمام لفظ جو ترتیب سے رکھوں آزر
خیال اپنے گرفتار ہونے لگتے ہیں (کیمیا)
زیرِ مطالعہ انتخاب پانی، مآخذ اور کیمیا کی شاعری کے مئوخرالذکر قائم کردہ معیارات کا ہی ایک مثبت اور واضح تسلسل ہے، اور جیسے کہ آزر نے اپنی تصانیف میں خود شعوری طور پر اپنے مخصوص رنگ یا اسلوب کے برتنے کے لئے کئی تازہ جہتوں اور زاویوں کی تراش میں جدت کی آمیزش کو یقینی بنایا ہے بلکل ویسے ہی یہ انتخاب آزر کے انفرادیت پر مبنی طرز اظہار کے لئے مزید استحقام کا موجب ہے ۔
ْ
لغات جاں سے کشید کرتے ہوئے سخن کو
میں ایک حرف ِ غلط معانی سے ڈر رہا تھا
شعر وہ لکھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہو جائو
لفظوں کی ترتیب میں آہنگ پیدا کرلیا
مستقل لکھنے سے اپنا رنگ پیدا کرلیا
بدل رہا ہوں میں ترتیب سارے لفظوں کی
نکالنا ہے نیا راستہ غزل سے مجھے
اب مجھ پر ختم ہے آزر میاں مصرع کشی
بارے اپنے کام میں استاد ہوجائوں گا میں (کیمیا)
آزرکی شاعری میں جہاں تلمیح و تنسیق ،تجرید و تاکید یا مبالغہ و تعلیل اپنی مکمل صحتِ ادراک کے ساتھ نمایا ہیں ، وہیں صنعتِ تضادبھی اپنے معانی و بیان کی وضاحت کا ایک مخصوص اور پر کیف رویہ رکھتی ہے جو شعریت کے تمام تفہیمی امکانات کو معنویت کی پوشاک سے ممیز عالمِ وجود میں قرار عطا کرتی ہے ، جہاں رات کی موجودگی سے دن کی تشکیل ہوتی ہے اورجہاں خزاں کا موسم ، موسم بہار کی غمّازی کرتے کلام فصیح و بلیغ میں ادراک کی افزائش کو یقینی بناتا ہے
تضا د رکھتے نہیں ہم تضاد آپس میں
چراغ اور ہوا کی یہا ں بنی ہوئی ہے
یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کئی دنیائوں کو
ایسا پھیلائو سمٹ نے کے لئے ہوتا ہے
ورنہ سورج تو کبھی ایسا چمکدار نہ تھا
دن کے پردے میں کوئی رات مکمل ہو گی
تضادِ حسن میں تضاد ہے امشب
ہوا بھی چلتی رہے گی چراغ بھی رہے گا (کیمیا)
آزر کے یہاں بعض اشعار خوبصورتیء اظہار اور سہل پزیری و اثر انگیزی کا وہ شہکار ہیں جن کی گہرائی و گیرائی انہیں وہ آفاقیت عطا کرتی ہے جو مناسبتِ لفظی کے تحت فکری و تخیلاتی بالیدگی کا باعث ہیں اور جو اپنے قاری کے ہونٹوں پر کسی محاورے کے صورت مستعمل نظر آتے ہیں جن کا اجتماعی احساس کسی لازوال سرشاری کا عکاس ہے اور جنہیں اس بنا پر یقیناً ضرب المثل اشعار کی اساس کہا جاسکتا ہے جبکہ اردو شاعری میں اساتذہ کے ضرب المثل اشعار کی جانب توجہ کی جائے تو میرے مطابق زبانِ ریختہ میں سخن آرائی اور اس کی پرورش اساتذہ کے ضرب المثل اشعار کی سرپرستی میں ہی ہوئی ہے جو بلاشبہ غزل کی ہیئت میں ہمارا تہذیبی ورثہ ہی نہیں ہمارے تاریخی اقدار کے محافظ بھی ہیں چنانچہ اردو شاعری میں غزلیاتی ضرب المثل اشعار کے اپنے کئ موضوعاتی ادوار ہیں جو اپنے ابتدائی مراحل سے ہوتے ہوئے ضبطِ تحریر تک یہ مسافت انتہائی خوش سلیقہ اور ہموار راستوں سے فقط اس لئے طے کر پائے ہیں کہ اردو زبان نے ہر دور میں وہ قد آور شعرا پیدا کئے جنہیں بذریعہء سخن گوئی ایسے منظوم افکار برتنے کا ملکہ حاصل ہے جنہیں ضرب المثل اشعار کے مماثل کہا جائے تو شاید یہ بیجا نہ ہوگا اور انہیں معیارات کی کسوٹی پر بلاشبہ آزر کی کئی کئی غزلوں کو انطباق بخشا جاسکتا ہے، علاوہ یہ کہ ذیل میں مندرج اشعار میں نعت سمیت غزلیات کے مطالع بھی بطور تمثیل شامل ہے جو اس نوجوان شاعر کی دلکش و خوبصورت مطلع سازی پر دسترس کا ایک مکمل اظہار ہیں، اشعار دیکھئے
ﺑﻨﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﯿﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ
ﺍِﺱ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮔﺌﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ
اُس سے ملنا تو اُسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہوچکی ہے
دِیا جلانے کا مطلَب ہے شام ہوچکی ہے
یہ اِک فقیر کا حجرہ ہے آ کے چلتے بنو
پڑی ہے طاق پہ دُنیا اُٹھا کے چلتے بنو
وہ مجھے دیکھتا رہے اور میں
دیکھنا دیکھتا رہوں اُس کا
حدِ ادَب کی بات تھی حدِ ادَب میں رہ گئی
مَیں نے کہا کہ میں چلا اُس نے کہا کہ جائیے
کسی کسی کو ہے تربیتِ سخن سازی
کوئی کوئی ہے جو تازہ لکیر کھینچتا ہے
وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اُور پانی سے ڈر رہا تھا
شہر میں کوئی نہیں جس کو دعا دی جائے
سو مری عمر درختوں کو لگا دی جائے
دلاور علی آزر کی شاعرانہ شخصیت اس خزینے کے مثل ہے جس کی مکمل دریافت ابھی باقی ہے یا پھر وہ کوئی ایک ایسا اچھوتا خیال ہے جس کے اظہار میں یہ لب تراشیدہ ہوئے جاتے ہیں اورالفاظ کا دروبست اب تلک جس کی تفہیم کرنے سے قاصر ہے اور یقیناََ یہی وجہ ہے کہ آزر اپنے معاصرین میں سے ان چنندہ اور مخصوص شعرا ء کی فہرست میں شامل ہے جو اپنی اپنی مسندِ انفرادیت پر متمکن ہے اور فطرت نے جن پر اپنے پوشیدہ رموز و اسرار آشکار ہی نہیں کئے بلکہ اس سے بڑھ کے انہیں وہ قوت اظہار بھی بخشی ہے جس پر ان کے نطق کومکمل استحقاق بھی حاصل ہے اوریہ بہت اہم بات ہے کہ ابھی تو یہ سخنوارانِ عصر کی مقررکردہ حد ِ منازل کی جانب فقط اک نقطہء آغاز ہے بقولِ منیر نیازی۔۔
یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھرنا ہے
تحریر قاضی دانش صدیقی کراچی