طلوع مہر نے پھولوں کی زندگی کم کی
یہ کیا خوشی ہے کہ تقدیر کھل گئی غم کی
جلاؤ خون رخ شمع زرد ہے یارو
لگاؤ آگ کہ نکھرے تو آبرو غم کی
لبوں تک آئی ہوئی مسکراہٹوں کو نہ روک
تری بلا سے جو بڑھ جائے زندگی غم کی
نہ کر یقین کہ بیدار ہیں چمن والے
بھرے چمن میں لٹی ہے بہار شبنم کی
جنہیں شعور غم دوست راس آتا ہے
حضور دوست بھی کرتے ہیں آرزو غم کی
مری طرف سے بھی اس در پہ ایک سجدۂ شوق
جہاں خوشی کے برابر ہو آبرو غم کی
جفا شعار دعا دے مرے تبسم کو
ہزار بار بڑھا دی ہے آبرو غم کی
گزر چکا ہوں ہر اک زندگی سے میں انجمؔ
مرا کلام ہے تاریخ سارے عالم کی
انجم فوقی بدایونی