ظالم کو دوں دعائیں میں خوش ہوں رقیب سے
ملتا ہے پیار پیسہ یہ عزت نصیب سے
دل خوش کرے گا چاند پہ کیچڑ اچھال کر
کچھ بن نہیں پڑے گا جو دشمن غریب سے
شاید مری تلاش میں ھے کوئی سانحہ
کچھ دن سے آ رھے ہیں جو سپنے عجیب سے
ہم لوگ بے حسی کے پرانے مریض ہیں
جن کا علاج پیر نہ ہوگا طبیب سے
اک عمر جنکی ذات سے مرعوب میں رہی
چہرے بگڑ گئے ذرا دیکھا قریب سے
پہلے قدم پہ خوف تھا وہم و گمان تھے
پھر کھینچتے ہی لے گئے رستے مہیب سے
علم و ادب کی آبرو دولت نے لوٹ لی
امید یہ نہ تھی کسی شاعر ادیب سے
فوزیہ شیخ