ظلمتِ کفر ، لوگو مٹاتے چلو
قلب کو نور سے جگمگاتے چلو
جس قدر خار ہیں وہ اٹھاتے چلو
راستوں کو گُلوں سے سجاتے چلو
دید کی تشنگی کی تو ہے بات اور
تشنگی روح کی بھی مٹاتے چلو
بس ہو زکر نبی دل یہ بے تاب ہے
ہم کو آقا کی باتیں سناتے چلو
عاصیوں کی اگر ہو یوں بخشش کہیں
عشق آقا میں آنسو بہاتے چلو
ہم تو پیاسے ہیں روز ازل سے بہت
آبِ زم زم ہمیں بھی پلاتے چلو
سامنے سبز جالی کے جب آ گئے
سر جھکا کے چلو جگمگاتے چلو
روز محشر کی جو بات ہے وہ الگ
تم یہاں سے شفاعت کماتے چلو
کچھ تو “ شہناز ” موسم سہانا بھی ہو
پھول دل کے لبوں پر کھلاتے چلو
شہناز رضوی