عابد رشید عبد ہے پروردگار کا
لیتا ہے کام اِس سے وہ خدمت گزار کا
نعتِ نبیؐ کو کہتا رہے کام دے دیا
کوثر کا یعنی بھر کے اِسے جام دے دیا
تقریبِ رونمائی ہے اِس کے کلام کی
تحریر جس میں شان ہے خیرالانام کی
ہونٹوں پہ رکھ کے شہرِ کراچی کی چاشنی
اِس نے بجھائی جا کے شکاگو کی تشنگی
اِس پر غرور کرتی ہے سچ پوچھو عاجزی
سجتی ہے اِس پہ خوب بہت خوب سادگی
انعام یافتہ ہیں خدا سے وہ ہستیاں
اردو زباں کی جو بھی بساتی ہیں بستیاں
اردو ادب کے جلتے چراغوں کی آبرو
عابد رشید تم نے بچائی ہے باوضو
کہنے کو تو غزل کا بھی شاعر ہے باکمال
لیکن نبیؐ کے عشق میں رہتا ہے یہ نڈھال
نعتِ نبیؐ ہو حمدِ خدا ہو یا منقبت
کہہ کر سنوار لیتا ہے یہ اپنی آخرت
ہر نعت کہہ رہی ہے یہ عابد رشید کی
عشقِ نبیؐ میں ڈوب کے دل سے کشید کی
مہکا ہوا ہے عشقِ نبیؐ سے ہر اِک سخن
یعنی کہ دل مدینے شکاگو میں ہے بدن
جب بھی ہوئی ہے فون پہ عابد سے گفتگو
میں نے فروغِ نعت کی دیکھی ہے جستجو
بزمِ حریمِ نعت سے کر کے مشاعرے
جوڑے محبتوں سے عقیدت کے دائرے
عابد رشید کا ہے تخیل رواں دواں
سر پر ہے اِس کے رحمتِ ربی کا سائباں
مقصد ہے اِس کی زیست کا کیونکہ فروغِ نعت
مہکی ہوئی ہے زندگی ہے پر سکون ذات
جس دل میں مصطفی کی محبت ہو جاوداں
وہ کس طرح سے ہوگا بتاؤ تو بے اماں
عابد ہے کیسا شخص میں تحریر کیا کروں
دھڑکن کو اِس کے دل کی میں تصویر کیا کروں
عابد رشید بحرِ سخن کی وہ موج ہے
جس کا نصیب فانی جہاں میں بھی اوج ہے
خیر الانام نعتِ نبیؐ کی کتاب ہے
جس میں ہر ایک نعت عقیدت کا باب ہے
عابد رشید گو کہ شکاگو کا ہے مکیں
نعتِ نبی سبب ہے جو ہر دل کے ہے قریں
عابد رشید کا یہاں جو بھی مقام ہے
میری نظر میں بخششِ خیر الانام ہے
عابد رشید آپ کی خدمت میں ہے سلام
حسان کی حسین مبارک ہو تم کو گام
رحمت کی تم پہ ہوتی رہیں یونہی بارشیں
اور تم سمیٹتے رہو ایسے ہی چاہتیں
چھو کر نہ گزریں تم کو زمانے کے رنج و غم
چلتا رہے ہمیشہ تمہارا حسیں قلم
نسیم شیخ