عجب سکوت سا ہے وقت بھی رکا ہوا ہے
مری زمیں تری گردش کو آج کیا ہوا ہے
ذرا سا مرتبہ جس جس کو بھی ملا ہوا ہے
وہ شخص شہر میں جیسے خدا بنا ہوا ہے
میں داستان سرائے میں آتا رہتا ہوں
کہیں کہیں سے یہ قصہ مرا سنا ہوا ہے
یہاں سے کس کی سواری گزرنے والی ہے
ہر ایک شخص نے ہاتھوں پہ سر رکھا ہوا ہے
جو زشت رو ہو اسے زشت رو دکھاتا ہے
کہاں کا دیکھیے یہ آینہ بنا ہوا ہے
ستارو آو ذرا دیر مل کے بیٹھتے ہیں
ستارہ ساز کہیں کام سے گیا ہوا ہے
ذرا ذرا سے سرکنے لگے ہیں سیارے
یہ آسمان بھی محور سے کچھ ہٹا ہوا ہے
سفر میں کوئی بھی ایسے جدا نہیں ہوتا
تو جس طرح سے مرے ہم سفر!جدا ہوا ہے
طارق نعیم