غزل
عجب ہجوم سوالوں کا روندتا ہے مجھے
میں کون ہوں میں کہاں سے ہوں کیا ہوا ہے مجھے
بکھر نہ جائے کہیں جسم و جاں کا پل میرا
وہ مجھ پہ چل کے ابھی پار کر رہا ہے مجھے
اسے شعور کی دیمک نہ لگ گئی ہو کہیں
وجود اب کے بہت بھربھرا ملا ہے مجھے
پھر ایک بار ہوں گم گشتگی کی خاک میں دفن
پھر ایک شخص نے قصداً بھلا دیا ہے مجھے
میں اپنے آپ کو بیمار کرتا رہتا ہوں
بچھڑ کے تجھ سے یہی کام رہ گیا ہے مجھے
آکاش عرش