عشق نے لکّھا حرفِ حق لوحِ مجاز پر مرے
رمزِ جنوں یوں وا ہوا قلبِ گداز پر مرے
سجدہ وہ ایک عشق کا میں نے جنوں میں جو کیا
حیراں بہت ہیں شیخ جی طرزِ نماز پر مرے
دیکھ کر اپنی کِرچیاں روئے شکستہ پر عیاں
آئینہ خود ہی ہنس پڑا آئینہ ساز پر مرے
میں نے تو بھیک میں فقط شبنم کی آرزو تھی کی
وقت نے شعلہ رکھ دیا دستِ دراز پر مرے
بحرِ تماشہ زندگی میری تباہ کر کے وہ
محوِ تماشہ رہ گیا عِجز و نیاز پر مرے
اے عندلیبِ خوش نوا تو نے یہ کیا ستم کیا
نغمۂ غم سنا دیا بر بط و ساز پر مرے
راشدِ رند خو کی ہی بہکی ہے عشق میں نظر
تہمت نہ دھر اے ہم نشیں عِشوہ طراز پر مرے
راشد حسین راشد