عشق کا دعویٰ غلط ہے بات ہے بے کار کی
بات مانی ہے کبھی کیا قافلہ سالار کی
جب کہا تھا قافلہ سالار نے مل کر چلو
کیسے جرات ہو گئی پھر آپ کو انکار کی
بن رہے ہیں بے ہنر بھی صاحبِ علم و ہنر
کوئی عزت ہی نہیں ہے جبہ و دستار کی
چھا گیا ہے دشتِ جاں میں اک غبارِ بے حسی
اب ضرورت ہے ہمیں بھی عشق کے آزار کی
عشق کی گردن تو اس سے ہنس کے ملتی ہے صدا
کتنی گہری دوستی ہے گردن و تلوار کی
بے قراری اور بھی بڑھنے لگی یہ سوچ کر
کوئی صورت ہی نہیں ہے اب وصالِ یار کی
اب سروں کی کوئی قیمت ہی نہیں بازار میں
کیسی حالت ہو گئی ہے گرمیء بازار کی
ہر قدم پر ان کا نقشِ پا نظر آنے لگا
کیا ضرورت ہے بھلا اب کوچہِ دل دار کی
کتنے ہی کردار شامل ہیں کہانی میں مری
بس ضرورت ہے مجھے اک صاحبِ کردار کی
فیاض علی فیاض