غزل
عشق کا کچھ بھی نہ انجام تو اے دل سمجھا
پہلے آسان تھا کیا اب جسے مشکل سمجھا
بے حجاب ان کو شب وصل جو دیکھا میں نے
چاند سے چہرے کو رشک مہ کامل سمجھا
دق ہے وہ جان مری عشق کی بیماری سے
کہ حکیموں نے بھی جس کو مرض سل سمجھا
بھویں حوروں کی نظر آئیں مجھے تلواریں
باغ جنت کو بھی میں کوچۂ قاتل سمجھا
ذرہ دیکھا جو کبھی متصل مہر فلک
میں نے قرب رخ پر نور صنم تل سمجھا
بہر تسلیم و رضا ہم نے جھکا دی گردن
ہائے افسوس کہ اس پر بھی نہ قاتل سمجھا
تو نہیں پر ترا جلوہ تو ہے میرے دل میں
پھر مجھے دور بھلا کیوں مہ کامل سمجھا
رخ دکھا کر مجھے کیا دھوکے دیے قرآں کے
ہاتھ گردن میں جو ڈالے میں حمائل سمجھا
جب سے دیوانہ تری زلف مسلسل کا ہوا
جس نے دیکھا مجھے مانند سلاسل سمجھا
جھیلیں تکلیفیں بہت عشق کی تو نے شیداؔ
اب نہ ہونا کسی بے رحم پہ مائل سمجھا
عبدالمجید خواجہ شیدا