غزل
عشق کا یہ دستور نہیں ہے
کوئی بھی منصور نہیں ہے
ایک نظر اے برق تجلی
دل ہے ہمارا طور نہیں ہے
خون ہمارا چھپ نہ سکے گا
خون ہے یہ کافور نہیں ہے
راہی ہمت ہار نہ دیجو
منزل اب کچھ دور نہیں ہے
حسن نے ڈالیں لاکھ نقابیں
پر دل سے مستور نہیں ہے
آج مجھے اے حسن بتا دے
کیا تو بھی مجبور نہیں ہے
میکشؔ کب مجبور نہیں تھا
ساقی تو مجبور نہیں ہے
استااد عظمت حسین خاں