غزل
عشق کی بازی جیت کے ہاری جا سکتی ہے
تیرے بنا بھی عمر گزاری جا سکتی ہے
ملنے میں ہے تجھ کو دھڑکا رُسوائی کا
اور فرقت میں جان ہماری جا سکتی ہے
میری آنکھوں کا آئینہ بھی تو دیکھو
اِس میں بھی تو زلف سنواری جا سکتی ہے
عقل و دانش، فہم و فراست اور ہمت سے
ڈوبتی نیّا پار اُتاری جا سکتی ہے
مل کر ہم کو لڑنا ہے دشمن سے، ورنہ
جان ہماری باری باری جا سکتی ہے
اپنی قدر و قیمت ہم سے بھی تو پوچھو
تم پر سے تو دنیا واری جا سکتی ہے
گھر کر بیٹھیں حرص و ہوس اور لالچ جس میں
کیا اُس دل سے دنیا داری جا سکتی ہے
شاعر علی شاعر