غزل
عشق کی جرأت سے کھیلے بڑھ کے اپنی جان پر
آنچ آنے دی نہ ہم نے آج تک ایمان پر
وقت نے قدریں بدل دیں لاکھ اس کے باوجود
حق بہت کچھ ہے ابھی انسان کا انسان پر
خار خوشبو دے رہے ہیں آج گلشن کے لیے
پھول گلدستے کی صورت میں ہیں آتش دان پر
آج بھی محلوں میں سازش اس طرح ہوتی تو ہے
ایک ہنگامے سے بن جاتی ہے سب کی جان پر
اس فرشتے نے نہ چھوڑا ان کا دامن تھام کر
شیخ جی پڑھتے رہے لاحول تک شیطان پر
کون جانے کل ہوا کیا رخ کرے گی اختیار
خوش نہ ہوں آغا مصیبت ہے اگر افغان پر
انقلاب آنے تو دو انصاف بھی ہو جائے گا
پھلجھڑی بھاری پڑے گی آگ کے طوفان پر
ہم بھی رکھتے ہیں وفا کے شہر میں اپنا مقام
حق برہمن کا نہیں ہے سارے ہندستان پر
چاہیے زیدیؔ فلک پر گھن گرج کے ساتھ ساتھ
حرف آنے دے نہ بجلی بادلوں کی آن پر
ابوالفطرت میر زیدی