عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی
سب کچھ کرنا، عشق نہ کرنا، عشق سے جان بچانا جی
وقت نہ دیکھیں، عُمر نہ دیکھیں، جب چاہے مجبُور کریں
موت اور عشق کے آگے لوگو چلے نہ کوئی بہانہ جی
مرنا وہ بھی عشق میں مرنا کام بڑی جی داری کا
اپنے ہی اشکوں پہ تیل چھڑک کر من کو پڑے جلانا جی
عشق کی ٹھوکر موت کی ہِچکی دونوں کا ہے ایک اثر
ایک کرے گھر گھر رُسوائی، ایک کرے افسانہ جی
عشق کی نِعمت پِھر بھی یارو! ہر نِعمت پر بھاری ہے
عشق کی ٹِیسیں دَین خُدا کی، عشق سے کیا شرمانا جی
عشق کی نظروں میں یکساں، کعبہ کیا، بُت خانہ کیا
عشق میں دُنیا عُقبیٰ کیا ہے، کیا اپنا بیگانہ جی
راہ کٹھن ہے پی کے نگر کی، آگ پہ چل کر جانا ہے
عشق ہے سیڑھی پی کے ملن کی ہو جائے تو نبھانا جی
طرزؔ! بہت دن جَھیل چکے تم دُنیا کی زنجیروں کو
توڑ کے پنجرہ اب تو تمہیں ہے دیس پِیا کے جانا جی