غزل
عقل داخل ہو گئی ہے وہم کے میدان میں
آسماں بانی بھی ہے اب حلقۂ امکان میں
عقل و دل کا سامنا تھا دیدۂ حیران میں
میں کھڑا ساحل پہ تھا وہ حلقۂ؎ طوفان میں
خلد سے دنیا میں آتے دم کہاں معلوم تھا
رنج و غم سو باندھ رکھے ہیں مرے سامان میں
دھند چھٹ جائے گی واعظ چار دن میں دیکھنا
ڈوب جائیں گے ترے قصے مرے اعلان میں
کفر اور الحاد کی ناخوبیوں کی بھیڑ میں
کوئی خوبی بھی تو ہوگی چین میں جاپان میں
میں ہجوم غم میں مرتا تھا نہ جیتا تھا سعیدؔ
وہ نظر آئے تو چندے جان آئی جان میں
سعید احمد اختر