غزل
علم معرفت کا اڑاتا چلا ہوں
رموز حقیقت سجھاتا چلا ہوں
ترے التزام محبت کی خاطر
میں ہستی کو اپنی مٹاتا چلا ہوں
کبھی آزمائش نے گھیرا ہے مجھ کو
کبھی اس کو میں آزماتا چلا ہوں
حسیں جلوۂ رخ کی تابانیوں سے
رخ روح کو جگمگاتا چلا ہوں
مصائب سے انعامؔ بے خوف ہو کر
ہر اک گام پر مسکراتا چلا ہوں
انعام تھانوی