loader image

MOJ E SUKHAN

علم و آگہی کا توانا درخت پروفیسر سحر انصاری

علم و آگہی کا توانا درخت پروفیسر سحر انصاری

 

جس طرح رات کے آخری پہر کے گھپ اندھیرے میں سحر چھپی ہوتی ہے، بالکل اسی مانند دنیائے ادب کے خزانوں میں چھپے ہوۓ ستارہ امتیاز پروفیسر سحر انصاری کی شخصیت چھپی ہوئی ہے ۔ کیونکہ موصوف کی شاعری نہ صرف سحر طاری کردیتی ہے بلکہ سحر کے وقت معطر ہواؤں، خوشبوؤں سے سحر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے انسان کو اپنے سحر میں مقئید کرکے موصوف کو ادبی ساحر ہونے کا احساس بھی دلاتی ہے،
اردو زبان کے ممتاز نقاد، جدید اردو غزل کے نمائندہ شاعر ،تخلیق کار ،،، انور مقبول المعروف پروفیسر سحر انصاری نے 27 دسمبر کو ہندوستان کے شہر اورنگ آباد کے ادبی گھرانے میں ادبی خدمات کو اپنا نصب العین بنانے کی خاطر آنکھ کھولی۔ جب شعوری نگاہ بیدار ہوئی تو اپنے گھر میں بڑے بھائی کے کتب خانہ کو موجود پایا۔اور گھر میں ادبی ماحول کی بناء پر ہر رات گھر میں،،بیت بازی،،کے مقابلوں نے بیت بازی کا حصہ بننے کے لیۓ مضطرب کر دیا۔ بیت بازی میں شمولیت اختیار کرنے والے کمسن طالب علم نے شعر و ادب میں جو مقام حاصل کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
سحر انصاری کے اجداد کا تعلق انصار کے قبیلے بنو خزرج سے تھا جسکی بناء پر انصاری کہلاے۔ بعد ازاں موصوف کے اجداد مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں عرب سے ہندوستان منتقل ہوے، میرٹھ میں ننھیال ہونے کی وجہ سے اسماعیل میرٹھی سے ننھیالی رشتہ ہے، جبکہ والد کا تعلق مرادآباد سے تھا، غم روزگار کے سلسلے میں سحر انصاری کے والد نے اورنگ آباد کو مسکن بنایا، سحر انصاری نے ساتویں جماعت تک کی ابتدائی تعلیم اورنگ آباد سے حاصل کی بعد ازاں مستقل طور پر کراچی منتقل ہوے، ابتدائی دنوں میں جیکب لائن میں سکونت اختیار کی ۔چند سالوں بعد پی آئی، بی، کالونی اور اب عہد حاضر ۔میں ناظم آباد کو اپنا مسکن بناۓ ہوۓ ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم، اردو، انگریزی لسانیات میں ماسٹر ڈگری کراچی سے ہی حاصل کی، 1973 میں بلوچستان یونیورسٹی کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوے، جبکہ سحر انصاری کی پہلا شعری مجموعہ، نمود، شائع ہوا۔ زندگی کے جھمیلوں اور غم روزگار کے حصول میں مصروف رہنے کی بناء پر 36 سالوں کے بعد،، تین کتابیں منظر عام ہوئیں جن میں غزلیات نظموں کا مجموعہ،، خدا سے بات کرتے ہیں،، فیض احمد فیض پر،، فیض کے آس پاس اور، تنقید افق،جو کہ مضامیں پر مشتمل ہے شائع ہوئیں،،
سحر انصاری کی ادبی خدمات و صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے 2010 میں تمغہ امتیاز اور 2015 میں،،، ستارہ امتیاز،، سے بھی نوازا گیا۔
علم و ادب میں بلند مقام پروفیسر ،نقاد، شاعر، تخلیق کار،سحر انصاری کراچی یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ، اور اردو ڈکشنری بورڈ کے مدیر اعلیٰ کے علاوہ، انجمن ترقی اردو ادب کے خازن جبکہ گزشتہ پچیس برسوں سے سرپرست اعلیٰ اردو لٹریری ایسوسی ایشن انٹرنیشنل بھی ہیں۔
اور اردو ادب کو پروان چڑھانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں نظر آتے ہیں، اور تاحال مطالعہ بینی کو اپنا شعار بناۓ ہوۓ ہیں ۔۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سحر انصاری بزرگی کی بناء پر اکثر تقاریب میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔۔۔ میرے استفسار پر پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ مجھے آرام کرنے کے بجاۓ اپنے علم و تخلیق کو دوسروں تک منتقل کرنا ہے بالخصوص نوجوانوں کو تخلیقی جوہر کے حصول کی جانب راغب کرکے شعر وادب کی جانب مائل کرنا ہے۔۔کیونکہ۔۔ میں بظاہر جسمانی کمزور ہوں ذہنی کمزور نہیں ۔۔
موصوف کے اس عزم سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یقننآ اس منزل تک پہنچنے میں کن کن دشوار گزرگاہوں کا تعین کرکے کامیابی کی راہ تلاش کی ہوگی یہ پروفیسر سحر انصاری سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا ہے ۔ اگر یوں کہا جاۓ کہ دنیا کے بے ہینگم ہجوم میں ہوتے ہوے بھی رات کے آخری پہر کے بعد سحر انصاری کے روپ میں سحر ہوتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔۔۔
بقول سحر انصاری ،،

عجیب ہوتے ہیں آداب رخصت محفل،
کہ اٹھ کہ وہ بھی چلا جسکا گھر نہ تھا کوئی۔۔
کسی بھی زخم کا دل پر اثر نہ تھا کوئی،
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی،
ہجوم شہر میں شامل رہا اور اسکے بعد،
سحر ادھر بھی گیا جدھر نہ تھا کوئی،،،،

 

تحریر فیاض الحسن فیاض