عکس درِ رسول مری چشم تر میں ہے
آباد آئنوں کا سمندر نظر میں ہے
قدموں کی دھول سر پہ سجانے کے واسطے
خوشبو چراغ لے کے ازل سے سفر میں ہے
شبنم، دھنک، چنار، ہوا، چاندنی، سحاب
ہر حُسنِ کائنات تری رہ گزر میں ہے
ہر چیز رقص میں ہے جہانِ شعور کی
کیفِ دوام مدحتِ خیرالبشر میں ہے
ان کے قدوم پاک کی اترن کے نور سے
سورج میں روشنی تو اجالا قمر میں ہے
خورشید صبح غارِ حرا سے بلند ہو
آدم کی نسل ظلمتِ شب کے اثر میں ہے
کملی کی اُوٹ میں اسے لے لیجیے حضور
میرا چراغ تیز ہوا کے نگر میں ہے
شہرِ سخن میں اسمِ نبی کی ہے چاندنی
ورنہ کمال کیا مرے دستِ ہنر میں ہے
سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضور کو
سب کچھ ریاض دامنِ خیرالبشر میں ہے
ریاض حسین چودھری