loader image

MOJ E SUKHAN

17/06/2025 14:36

غزل Ghazal کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت

غزل Ghazal

تلخیص: غزل اُردو ۔ فارسی یا عربی کی ایک صنفِ سُخن ہے۔جس کے پہلے دو مِصرے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ غزل کے لیے پہلے ریختہ لفظ  استعمال میں  تھا۔( امیر خسروؒ نے موسیقی کی راگ کو ریختہ نام دیا تھا) ادب کے دیگر اصناف ادب اور فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ  غزل کو پسند کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین  ذریعہ اظہار بھی ہے۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے۔ غزل کا سانچا چھوٹا ہوتا ہے اسی لیے جذبے یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ اس لیے رمزء ایماتمثیل و استعارہ، پیکر آفرینی اور محاکات اُس کے فنی لوازم بن گئے ہیں۔غزل متنوع موضوعات کا مرکب ہوتی ہے۔اس مقالہ کا بنیادی مقصد  قدیم اور جدید غزل کی بدلتی ہئیت اور  معنویت کی عکاسی کرنا ہے۔ ہیئت سے مراد ‘اندازِ و بیاں کی وہ صورت جو فنی اور تکنیکی خصوصیات کے سبب شعری تخلیق کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
 غزل قصیدے کا جزو تھی، جس کو ’’تشبیب‘‘ کہتے ہیں۔ پھر وہ الگ سے ایک صنفِ شعر بن کرقصیدے کے فارمیٹ میں تبدیل ہو گئی۔ فنی اعتبار سے بحر اور قافیہ ’’بیت‘‘ اور غزل کے لیے یکساں ہے۔ اس مقالہ میں غزل کی بدلتی ہئیت کی داستان  کو چار ادوار میں منقسم کیا گیاہے ۔پہلا دکنی غزل ۔ دوسرا اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک محیط ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے آخر تک ۔ تیسرا۱۸۵۷ء سے اقبال تک کا جائزہ لیا گیا ہےاور آخری میں اقبال کے بعد جدید دور تک کا احاطہ کیا گیاہے۔ اس کے بعد ترقی پسند(۱۹۳۶ء تا۱۹۵۰ء) کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس عہد میں غزل ہئیت اور معنویت  دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئ۔ ترقی پسندوں نے بھی غزل کے متعلق اپنی اجدادی وراثت اور روایت سے بےشمار غلط سمجھوتے کیے۔ قدیم روایاتی علامات، استعاروں، تشبیوں، تلمیحات یا کتب وغیرہ کو غیر روایاتی معنیٰ اور ماہیم دینے کی کوشش کی۔ اس طرح قدیم روایت کے ملے جلے اثرات ترقی پسندوں کی روایت شکنی کے اعلانات کے باوجود جدید غزل میں شعوری اور غیر شعوری طور سے سرایت کرتے چلے گئے۔ 

جدید تحقیق میں اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے ہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کے بغیر بہت سے صوفیائے کرام نے شاعری کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنایا لیکن غزل کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ بہمنی سلطنت میں غزل کے نمونے بہت ہیں۔ لیکن گولکنڈہ کی سلطنت کے قطب شاہی اور عادل شاہی حکمران کی شعر و ادب سے دلچسپی کی وجہ سے اردو غزل بہت ترقی کی۔ مقالہ میں غزل کے بدلتی  روایت کو   نویں صدی کے اواخر میں فارسی غزل سے ترقی کر کے  سترویں صدی میں اردو میں منتقل ہونے تک کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ فارسی سے اردو میں آئی تھی۔ اس لیے فارسی کے عصری معنویت اور تاثرات بھی اردو غزل میں کوبہ کو نظر آتے ہیں۔ابتدائی غزلوں میں ماسوائے عشق و محبت کے مضامین باندھنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کیوں کہ خود غزل کے لغوی معنی بھی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں۔ یہاں تک کہ مولانا شبلی نے بھی غزل کو عشق و محبت کے جذبات کی تحریک سمجھا۔لیکن بعد حاؔلی نے مقدمہ شعر و شاعری میں غزل کے ہر مضمون کی گنجائش پیدا کر دی ہے۔جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کئے جارہے ہیں۔اس طرح کی بدلتی ہئیت کو اس کی  مناسب معنویت کے ساتھ تحقیقی نقطہ نظر سے بیانیہ انداز میں تاریخی تحقیق کا طریقہ کار میں مقالہ قلم بند کیا گیاہے۔یہ مقالہ طلباء ٹیچر اور شعراء کو اردو غزل کی ہئیت اور مختصر تاریخ کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوگا۔

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین