loader image

MOJ E SUKHAN

غزل Ghazal کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت

  1. تعارف:

کلیدی الفاظ:اُردو غزل،تفہیمِ غزل، غزل کی تاریخ،غزل کی ہئیت اور معنویت۔

غزلولیت اردو شاعری کی آبرو  ہے۔اگر چہ مختلف زمانوں میں شاعر کی بعض دوسری قسمیں بھی اردو میں بہت مقبول رہی ہیں۔ لیکن نہ تو ان کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکی  نہ ہی اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکی۔ پھر بھی بیسویں صدی کے نصف میں اس صنف کے بہت مخالفین  پیدا ہوئے لیکن مقبولیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

لفظ ’غزل‘ کے سنتےہی حواسِ خمشہ بیدار ہو جاتے ہیں۔یہ صنف  ادب و سخن میں مرکزی حیثیت کی حامل  ہے، عام و خاص کی ابتدا د سے ہی دلچسپی کا ذریعہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے بھی اس مقام اعلیٰ ہے۔ عالمی سطح پر سیر و تفریح کرتی ہے۔  یہ ادب بھی ہے اسٹیج بھی ہے۔جذبات و احساسات کا سمندر بھی ہے۔ ناگن سی ناچتی مستی شراب کی لزت بھی اسی میں ہے۔ قوموں ‘ملکوں کے فاصلے مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔میر و غالب ہوئے ‘ حالی  درد بیدل اقبال ہوئے یا پھر جگر مومن اور درد آتش ہوئے۔ حسرت اس صنف سے فیضیاب ہوئے تو جرأت نے ایسی داغ بیل ڈالی کے سب ذوق اس کے آگے فانی ہوئے۔ ناطق اپنے جوش وجگر سے بے نظیر ہوئے۔ شاد فرازا و رفراق نے شوق سے غزل کےآرزو مند ہوئے۔ ندا سے اس کی ہر کوئی سر شار ہوئے۔دکن میں قطب، خواجہ ، شوقی، عادل ،نصرتی، میرا ں،غواصی،وجہی سب اس کے جاں نثار ہوئے۔ وہیں ان کے نقش قدم پر وؔلی ، سراج  اور صفی بھی متوجہ ہوئے ۔ شمال میں  شاہ حاتم ،  آبرو، مظہر  نے  لطف  اور مجاز سے  کوئی بہادر ہوئے کوئی ظفر ہوئے۔ ایہام گوئی  کے آبرو، ناجی، مضمون، یکرنگ، سجاد،  یقین، میری ، مرزا سودا، خواجہ میر درد، قائم چاندپوری، میر سوز  اس صنف  کے  عاشق ہوئے۔ دبستان لکھنو میں جرأت،انشاء،مصحفی،رنگین،نسیم ، آتش، ناسخ،تلامذہ اور  انیسؔ نے  غزل گو ئی کو اپنا خون و جگر دیا۔ وہیں ناؔصر ، ناسخ، نصرتی نے بڑی آرزؤں ‘ آزادخیالی سے اس کے مجروع ہوئے۔ اس طرح سے غزال کو غزل بنانے میں ہر کوئی اپنے اپنے وہت کے ساتھ اس فن کو فروغ دیتے رہے ۔لیکن روایتی طور پر سب اپنی دکھ اور درد کو ہلکا کرنے کا ذریعہ غزل Ghazal کو ہی تصور کر رکھا تھا ۔ اس کے برعکس مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے روایت کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس میں انہوں نے  عورتوں سے بات کرنے کے بجائے  سماج کی باتیں کرڈالی۔خاص طور پر مسدس، مدوجزر اسلام لکھ کر انہوں نے اردو شاعری کو ایک نئی سمت دی اور نئے امکان سے روشناس کیا۔انہیں کی وجہ سے اردو غزل  میں نئے رنگ و آہنگ پید اکیا۔ حالاں کہ ان کی غزلیات کا دیوان مختصر ہے لیکن تمام تر منتخبہ ہے۔ثبوت میں ان کی ایک غزل  ملاحظہ فرمائیں:

بُری اور بھلی سب گذرجائے گی؛یہ کشتی یوں ہی پار اُتر جائےگی
ملے گا نہ گُلچیں کر گُل پَتا؛ہر ایک پنکھڑی یوں بکھر جائےگی

رہیں گے نہ ملّا یہ دِن سَدا؛ کوئی دن میں گنگا اُتر جائے گی
بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ؛یہ عزّت تو جائے گی پر جائےگی

ایک تبصرہ چھوڑیں