ع نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
عکیا مزا ہوتا اگر پتّھر میں بھی ہوتا نمک(غاؔلب)
غزل کے پاؤں میں ردیف یا جھانجھن کا حکم رکھتی ہے۔ یہ اس کو موسیقیت ،ترنّم اور موزونیت کو بڑھاتی ہے۔ دوسری طرف اس کے تنِ نازک کو گراں باریِ زنجیر کا احساس بھی دلاتی ہے۔ فنی لحاظ سے ردیف کی چولیں سب سے پہلے قافیے کو بٹھانی پڑتی ہیں
غزل کے فنی لوازمات پر وفیسر عنوان چشتی نے چند اصول بیان کیے ہیں۔
’’ غزل Ghazal کا رجحان بنیاد ی طور پر عربی و فارسی شعریات پر ہے۔ یہ اصول ،علم لغت، علم بیان اور عروض و قافیہ سے ماخوذ ہے، علم قواعد، علم بدی،جنہیں استاذہ نے ’’معائبِ سخن‘‘ اور ’’محاسنِ سخن‘‘کا نام دیا ہے۔ وہ نقائص، جو شعری ہئیت کے حسن کو مجروح کرتے ہیں، ’’ معائبِ سخن‘‘ میں شامل ہے۔اور خوبیاں جو ہئیت کے جمال میں اضافہ کرتی ہیں،’’ محاسنِ سخن‘‘ کہلاتی ہے۔’’معائبِ سخن‘‘ میں ایوبِ خوافی ، ایوبِ بحر، ایوبِ زبان اور دیگر نقائص ہئیت شامل ہے۔ ایوبِ خوافی میں ایطا، اکفا، اقوا، صناد وغیرہ شامل ہے۔ان کے علاوہ غُلو تعدی، تفمین، تغیّر، معمولہ، تعریف اور اختلافِ حرفی روی پر بھی اس نقطہ نظر سے سوالیا نشان قائم کیا جاتا ہے۔ اس نظم قوافی میں ہر فِ روی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے انگریزی کی طرح اردو میں قطّیٰ، بسری اور صوتی قوافی کی گنجائش نہیں۔جن شاعروں نے صوتی قوافی (میراث اور احساس) بڑھتے ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ ایک تجربے کا نام دیا جاتا ہے۔ ایوبِ بحر میں حرف صحیح کا سقوط اور عربی اور فارسی الفاظ کے حروف ِعلت کا سقوط شامل ہے۔ بعض بحروں میں شکستِ نارو اوارد ہوتا ہے۔ داغ ؔ اسکو کے اکثر استاذہ نے اس کو عیب گردانا ہے۔ لیکن بعض شعرا شکست ناروا اور عربی و فارسی کے حروف علت کے سقوط کو روا رکھتے ہیں۔ مگر اکثریت ان صورتوں سے اجتناب کرتی ہے۔ چوں کہ غزل کا سانچا عروضی نقطہ نظر سے زیادہ لچک دار نہیں ہے ۔ اس لیے اوزان و بحُور کے نقطہ نظر سے ذرا سی بے اعتدالی بھی بہت زیادہ کھٹکتی ہے۔‘‘
اردو غزل ہمیشہ فارسی شاعری کی مقلد رہی ۔اس کی وضاحت ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے اس طرح کی ہے کہ شعر و شاعری کا عموماً اور ایشیائی شاعری کا خصوصاً عشق و محبت کے جذبات و احساسات سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ ہماری اردو شاعری سراسر فارسی شاعری کی متبع ہے اپنے ابتدائی حالات میں عشق و محبت و معشوق و دیگر لوازمات عاشقی کے وہی سانچے وہی تصورات اور وہی معیار رکھتی ہے جو ایران میں اس وقت رائج تھے ۔ اسی طرح محمد یعقوب آسی نے غزل کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی ہے۔لفظ ’غزل‘ کے معنی کے لحاظ سے اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ’غزل‘ کو جو کچھ کہا جاتا رہا، اس تفصیل کا اجمال کچھ اس طرح ہے:
- عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، جسے ریختی بھی کہا جاتا ہے۔
- ہرن (غزال) جب زخم خوردہ ہو تو جو آواز وہ شدتِ خوف اور شدتِ درد کے عالم میں نکالتا ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ اس حوالے سے درد و الم کے بیان کو غزل کا موضوع کہا جاتا ہے۔
- محبوب کا شکوہ، اس کے لئے اپنے جذبے اور وارفتگی کا بیان، اس کی بے اعتنائی کا احوال غزل کا محبوب موضوع رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محبوب حقیقی بھی ہو سکتا ہے، مجازی بھی، خیالی بھی اور بعض شعرا کے ہاں اپنی ذات محبوب کا درجہ رکھتی ہے۔
- دوستوں اور زمانہ کی شکایت، اپنے ذاتی، اجتماعی یا گروہی رنج و الم کا بیان۔
- اپنے گرد و پیش کے مسائل کا بیان اور ذاتی تجربات اور مشاہدات کا قصہ، ارادوں کا اظہار اور ان کے ٹوٹنے پر دکھ کی کیفیت۔
- گل و بلبل، جام و مینا، لب و عارض کا بیان۔ خیال آفرینی، معنی آفرینی اور حسنِ بیان۔
غزل کے ڈھانچے کی تعمیر کے ان متعدد طریقوں میں ایک ہے جن کا ہم ذکر کرچکے ہیں۔وہی غزل Ghazal جس کے مختلف اشعار کے موضوعات میں ظاہر ی ربط تو نہیں ہوتا لیکن غزل کی داخلی و حدت کو محسوس کیاجا سکتا ہے۔ کائنات ِ اصغر سے لے کر عالم اکبر تک اور انفرادی سے لے کر عالم گیر تجربے تک وجود کی مختلف سطحوں کے بدلنے کے عمل میں ہمیں غزل کے ادراکِ کائنات کے طریقہ کار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی: ’’ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے رنگ و آہنگ، سمت و رفتار اور وزن اور وقار ملا ہے ‘‘۔ فراق گورکھپوری کے بقول ’’اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘‘۔ اس سلسلہ کی کڑی کو احمد ندیم قاسمی نے ایک شعر سے جوڑا ہے :