Gham Nay andar Talak jhanjhoor Diya
غزل
غم نے اندر تلک جھنجوڑ دیا
پھر بھی کب تیرا ہاتھ چھوڑ دیا
جب تعاقب کِیا ہے سائے کا
سر کو دیوار سے ہی پھوڑ دیا
میرے کنویں کا پانی میٹھا ہوا
پیار کا لیموں جب نچوڑ دیا
ہم نے بنیاد کیا غلط رکھّی
اُس نے دیوار کو ہی توڑ دیا
یہ فلک سے بلند ہونا ہے
رشتہ اس خاک داں سے جوڑ دیا
قرض اپنوں کے کب چکائے گئے
آخری قطرہ تک نچوڑ دیا
کون مانے گا اب ولی تیری
رُخ ہوا کا دیئے نے موڑ دیا
شاہ روم خان ولی
Shah Room Khan Wali