غم ہو یا عیش جیتے جی تک ہے
زندگی شغلِ زندگی تک ہے
خوب رو ہو گا کیا کوئی ایسا
آپ کی بات آپ ہی تک ہے
دشمنی سے بھی وہ غافل نہیں
دوستی حدِ دوستی تک ہے
زندگی جب نہیں تو کچھ بھی نہیں
لطف دنیا کا زندگی تک ہے
ہم تری دوستی سے کیوں نہ ڈریں
سلسلہ اس کا دشمنی تک ہے
شمع و پروانہ پھر کہاں دمِ صبح
سب یہ ہنگامہ رات ہی تک ہے
میں سمجھتا ہوں آپ کی گھاتیں
دل دہی صرف ضاں دہی تک ہے
عشق سے مل چکی نجات مجھے
اب یہ آزار زندگی تک ہے
تیر نکلے ہوۓ زمانہ ہوا
زخم دل میں مگر ابھی تک ہے
جان بھی جاۓ گی محبت میں
دل لگی کب یہ دل لگی تک ہے
حضرتَ داغؔ دہلوی کی زباں
حضرتِ نوحؔ ناروی تک ہے
نوح ناروی