غزل
غیر سے ہی کیوں گلہ شکوہ رہے
مشکلوں میں اپنا کب اپنا رہے
روٹھنے کے وقت یہ رکھو خیال
لوٹ کر آنے کا کچھ رستہ رہے
چاہے کچھ بھی ہو تعلق عرش سے
فرش سے انسان کا رشتہ رہے
ہر کسی کے دل میں ہو یہ آرزو
دوستوں سے قد مرا اونچا رہے
جھوٹا وعدہ کرنے کو سمجھو گناہ
چاہے حالت کتنی بھی خستہ رہے
پیری میں کرنے لگے ہیں حجتیں
عمر بھر پروازؔ بے پروا رہے
درشن دیال پرواز