فدا خالدی دہلوی عہد ساز شخصیت

تحریر حنیف عابد

اردو زبان کی تاریخ میں جہاں شاعری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہیں زبان کی ترقی ، ترویج اورمقبولیت میں دبستانوں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ سلاطین مغلیہ کے زمانے میں دہلی کوسیاسی اور حکومتی امور میں مرکزی حیثیت حاصل ہو نے کی وجہ سے دیگر معاملات میں بھی دہلی کی اہمیت مسلم قرار پاتی تھی ۔اردو زبان کی ابتداء کے حوالے سے جہاں برصغیر کے دیگر خطوں کا نام لیا جاتا ہے وہیں دہلی کا بھی ذکر آتا ہے ۔لشکری زبان ہو نے کے ناطے یہ بات با آسانی تسلیم کرلی جاتی ہے کہ پایہ تخت دہلی ہونے کی وجہ سے یہ زبان یہاں پھلی پھولی ضرور ہے ۔دبستان دہلی اپنے شعرا کی وجہ سے برصغیر کے دیگر شہروں پر ہمیشہ فوقیت کا حامل رہا ہے ۔ مرزا مظہر جان جاناں سے لے کر میر تقی میر ، میر درد اور مرزا غالب تک کا تعلق اسی مردم خیز خطے سے ہے ۔اردوزبان بالخصوص شاعری میں ان حضرات کی حیثیت کا تعین کیا جا چکا ہے ، اس ضمن میں میرا کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا ۔ایک زمانہ تھا ” دہلوی “ ہو نا ہی افتخار کا باعث سمجھا جاتا تھا ۔بھلا ہو انگریز کا کہ دہلی میں اُن کی حرکتوں کی وجہ سے صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی لیکن ادب کے حوالے سے بالخصوص شاعری کے حوالے سے دہلویت کا سکہ ہر جگہ چلتا تھا ۔دبستان دہلی میں جہاں میر و غالب کا طوطی بولتا ہے وہیں اس دبستان میں ایک اور فکری اور اسلوبی اسکول ہے جسے ہم شیخ ابراہیم ذوق کا یا پھر داغ دہلوی کا اسکول کہہ سکتے ہیں ۔اپنی جگہ اس اسکول کی اہمیت بھی نہایت مستحکم ہے ۔ زبان کی صفائی اور اس کے فروغ کے لئے اس دبستان کے شعراء کی کاوشوں کا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا داغ دہلوی تو کہتے ہیں

اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہونے کے بعد دلی کا دبستان اجڑ گیا ،جو لوگ بچے وہ اپنی خاندانی شرافت ، اسلاف کی روایت کی نعش اپنے کاندھے پر رکھے گھسیٹ رہے تھے ،”ہمت مرداں مدد خدا“ کے مصداق کسی نہ کسی طرح وقت کا پہیہ آگے سرکتا گیا ۔ علم و ادب کے وہ مناظر تو دکھائے نہیں دیتے تھے جو خوشحالی اور فارغ البالی کی دین ہوتے ہیں لیکن علم وادب جن کی گھٹی میں پرا ہو وہ کب حالات کی پرواہ کرتے ہیں ۔شیخ ابراہیم ذوق کے تلامذہ نے شعر وادب کے چمنستان میں اپنی فطری صلاحیتوں کے ذریعے وہ وہ گل بوٹے کھلائے کہ حالات کی خزاں انگیزی ان کی تازگی کو کملانے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔داغ دہلوی کے شاگرد رشید بے خود دہلوی بھی کثرت سے تلامذہ رکھتے تھے ۔ان کے شاگردوں نے بھی بہت نام کمایا اور اب بھی شاید بھارت میں ان کے تلامذہ میں قابل ذکر شعرا ¿ موجود ہوں گے ۔ پاکستان میں بے خود دہلوی کے جاں نشینوں میں سب سے معتبر اور عہد آفریں نام فدا خالدی دہلوی کا ہے ۔

دلی کی عظمتِ رفتہ کی نشانی دیکھنے یا دبستان دلی کا نظارہ کرنے کی خواہش دل میں بیدار ہوتی تومیں فدا خالدی صاحب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ۔یہ غالباً1979 کی بات ہے جب شاعری کے شوق نے اچھے خاصے پر پرزے نکال لئے تھے ۔ کراچی کی ادبی تقاریب میں شرکت معمول بن چکی تھی ۔حسرت موہانی کالونی جو میری جائے پیدائش اور اوائل عمری کی رہائشگاہ بھی تھی کئی اہل علم و ادب سے مالا مال تھی ۔ واحد بشیر ، شاعر کانپوری ،ظفر مسعود خیال ایڈوکیٹ سمیت کئی اہل علم و ادب مجھ ناچیز کو محبت اور شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔بڑے بورڈ پر ایک ہوٹل میں اکثر نشست ہوتی جہاں دیگر علاقوں سے بھی شاعر و ادیب شرکت کرتے تھے ۔ایک دن رات کو ایک مشاعرے میں شرکت کے عد گھر جارہا تھا کہ اسی دوران ہوٹل کے سامنے سے گزر وا تو شاعر کانپوری کی مجھ پر نظر پڑ گئی ۔انہوں نے آوز دی تو میں ہوٹل میں چلا گیا ۔میز پر چند اور احباب بھی تشریف رکھتے تھے ۔ ایک صاحب نہایت وجیہہ ، با رعب ، نفیس الطبع نہایت وقار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ دیگر افراد کے ساتھ ان سے بھی سلام دعا اور معانقے کے بعد میں بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد شاعر کانپوری نے میرا تعارف اس شخصیت سے ان الفاظ میں کروایا ”فدا صاحب یہ حنیف عابد ہیں نوجوان شاعر ہیں ، ان کی فکر اچھی ہے “فدا صاحب نے ایک نظر غور سے مجھے دیکھا اور ”ماشااللہ “کہہ کر دوسری جانب متوجہ ہو گئے کچھ دیر گفتگو ے بعد شاعر کانپوری نے پھر کسی بات پر اشارہ میری جانب کرتے ہوئے کہا ” حنیف عابد سے پوچھ لیں یہ بھی مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ،فدا صاحب نے ایک مرتبہ پھر میری جانب غور سے دیکھا اور پو چھا ” کیوں میاں پڑھتے وڑھتے بھی ہو یا صرف شاعری ہی کرتے ہو “بات مجھے ناگوار لگی لیکن میں نے کہا ” جی ! پڑھتا بھی ہوں ، جہاں تک ہمت ساتھ دے “ یہ سن کر وہ بولے ”چہ خوب “خیر یہ بتاﺅ کہ شجاع کی جمع کیا ہے ؟میں یہ سن کر چونکا کچھ دیر توقف کیا اور جواب دیا ”اشجاع “فدا صاحب نے میری جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا” اورچائے پیو گے ؟“ میںنے اثبات میں سر ہلا دیا ۔یہ میری پہلی ملاقات تھی حضرت فدا خالدی دہلوی صاحب سے ،وقت کے ساتھ قربت اور محبت بڑھتی چلی گئی ۔

فدا خالدی دہلوی ایک کامل فن استاد شاعر ہی نہیں نفیس ترین انسان ، بہترین دوست ، مخلص ترین ہم راز بھی تھے ۔ فدا صاحب نے دلی کی نیرنگیاں اور تباہی دونوں دیکھی یا دیکھے ہوئے لوگوں سے تفصیل کے ساتھ سن رکھی تھیں ۔وہ دلی کی باتیں اس انداز میں کیا کرتے تھے کہ بعض اوقات میں چشمِ تصور سے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا تھا ۔فدا خالدیصاحب نے ایک بھر پور زندگی گزاری کئی فراز دیکھے تو نشیب بھی ان سے دور نہ رہے ۔ اس مردِ قلندر نے کبھی ہمت نہیں ہاری ہمیشہ استقامت اور پامردی کے ساتھ حالات کا سامنا کیا۔ فدا خالدی صاحب کو عمومی طور پر ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ رباعی کے حوالے سے وہ ایک کامل استاد مانے جاتے ہیں ۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔فدا خالدی تمام اصناف شاعری پر مکمل دستگاہ رکھتے تھے ۔ آپ کا اختصاص اگر کوئی تھا تو وہ ”علم عروض “ پر کامل دسترس تھی ۔ آپ ناظم آباد 4نمبر میں بزم انصاری کے اینگلو اورنٹیل کالج میں ”علم عروض “ پڑھاتے تھے۔یہ علوم ِ شرقیہ کا وہ کالج تھا جہاں اس زمانے کے تمام نامی گرامی شعرا ¿ اور ادیب پڑھایا کرتے تھے ۔فداخالدی صاحب کی غزلیات کی کتاب ”آتش احساس “اور رباعیات کی کتاب شائع ہو چکی ہیں ۔اپنی زندگی میں انہوں نے علمِ عروض پر ایک کتاب پیمانہ¿ شعر مکمل کر لی تھی جسے شائع ہو نا تھا ۔اسی طرح انہوں نے آتش امروز کے نام سے نظموں کی ایک کتاب بھی طباعت کے لئے تیار کرلی تھی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کتابوں کی کتابت بھی ہو چکی تھی ۔ حالات نے ساتھ نہیں دیا اور یہ کتابیں شائع نہیں ہو سکیں ۔ اس کے علاوہ بھی فدا خالدی دہلوی نے بہت کچھ لکھا تھا ۔ وہ نہایت پر گو اور اعلیٰ فکر کے حامل شاعر تھے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع کی جائیں اور ان کا ایک کلیات شائع کیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں ادب کے طالب علم اس سے استفادہ کر سکیں ۔

1983میں فدا خالدی صاحب کی کتاب ”م ص “شائع ہوئی ۔جب انہوں نے مجھے اپنی کتاب دی تو کتاب کا نام پڑھ کرپہلے تو میں چونکا ! لیکن جب کتاب پڑھی تو حیران رہ گیافدا صاحب کی طبیعت کی جدت کا اس وقت مجھے شائبہ تک نہیں ہو اتھا ، میں انہیں ایک قدامت پسند استاد شاعر ضرور تسلیم کرتا تھا لیکن ان کے اندر جدت اس قدر مضبوط تھی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔نام کا اختصاص نام کی جگہ استعمال کرنے کی میرے سامنے یہ پہلی مثال تھی ۔ آج لوگ ایک دوسرے کو ان کے ناموںکے اولین انگریز ی حرف سے پکارتے ہیں ،فدا خالدی نے80کی دہائی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اختصاص ”م ص “ رکھ کر بتا دیا تھا کہ وہ کس قدر جدید ذہن کے حامل تھے ۔فدا خالدی دہلوی نہایت واضع طور پر دین اسلام کے شیدا اور ماننے والے تھے ۔ وہ ظاہری سے زیادہ باطنی صفائی پر زور دیتے تھے ۔ ان کے نزدیک انسان اندر سے صاف ہوجائے تو باہر کی غلاظت تعفن پیدا نہیں کرتی لیکن اگر باہر سے صاف ستھرا ہو اور اندر غلاظت بھری ہو تعفن پیدا ہو جاتا ہے جو سب کچھ تباہ و برباد کردیتا ہے ۔ وہ ملائیت کے نہیں اطاعت کے پیرو کار تھے ۔ان کی نعتیہ شاعری میں جا بہ جا ایسی مثالیں ملتی ہیں جو ان کے نبی اکرم ﷺ سے عشق اور قلبی وابستگی کو نمایاں کرتی ہیں ۔”م ص“ کی پہلی نعت ہی یہ ہے ۔

اللہ ُ غنی رتبہ ء عالی شہ دیں کا
ہے عرشِ معلّی پہ قدم خاک نشیں کا

ہشیار کہ چھٹ جائے نہ دامانِ محمد
اس راہ میں بھٹکا تو نہ دنیا کا نہ دیں کا

رہتا ہے فدا روضہ ¿ اقدس جو نظر میں
یہ پھل ہے حقیقت میں ترے ذوقِ یقیں کا

نعت کے ان تین اشعار میں فدا خالدی صاحب نے آنحضرت محمد ﷺ کے مقام اور مرتبے کو جہاں خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہیں انسان کو بھٹکنے سے بچانے کے لئے بنیادی کلیہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ کسی بھی قیمت پرنبی اکرم ﷺکا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ، یعنی نبی کی سنت کو نہ چھوڑا جائے اگر یہ چھوٹ گئی تو انسان ہلاکت میں پڑ سکتا ہے پھر وہ نہ دنیا کا رہے گا نہ آخرت میں ہی اسے کسی قسم کی کامیا بی میسر آسکے گی ۔انسا ن کی کامیابی کا اصل نکتہ انہوں نے مقطع میں بیان کیا ہے اور وہ ہے یقین ۔اگر یقین کامل نہیں ہوگا تو کچھ بھی نہیں ہو گا ۔ فدا خالدی کی نعتیہ شاعری پر بڑی طویل اور بامعنی گفتگو کی جا سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ناقدانِ فن کو فدا خالدی کی نعتیہ شاعر پر خصوصیت کے ساتھ کام کرنا چاہئے ۔

جب دفا خالدی صاحب کی کتاب ”م ص “ شائع ہوئی اسی دوران میں اپنا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر لا رہا تھا ۔ فدا خالدی صاحب سے میرے دوستانہ مراسم تھے ہو کبھی بھی میری شاعری کو اصلاح کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ میں پروفیسر قمر ساحری صاحب کا شاگرد ہوں اس لیے وہ میری شاعری پر کہیں بھی انگلی نہیں رکھتے تھے ۔جب میری کتاب کی اشاعت نزدیک آپہنچی تو ایک دن میں نے فدا خالدی صاحب سے فرمائش کردی کہ کتاب کا” قطعہ تاریخ “ وہ لکھیں فدا خالدی صاحب نے میری فرمائش رد نہ کرتے ہوئے وعدہ کرلیا ۔ دو ہفتوں کے بعد ایک دن وہ گھر تشریف لائے اور مجھے لے کر اپنے مخصوص ہو ٹل کی جانب روانہ ہو گئے راستے میں انہوں نے بتایا کہ میری کتاب کے لئے قطعہ تاریخ انہوں نے کہہ دیا ہے ۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی ، ہم جب ہوٹل پہنچے تو انہوں نے کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا ۔ کاغذ کھول کر جب میں پڑھا تو حیران ہوا وہ قطعہ کم تعویز زیادہ لگ رہا تھا ۔تو انہوں نےمجھے بتای اکہ قطعہ ” صنعتِ توشیح “ میں کا گیا ہے ۔ہر شعر کا پہلا حرف الگ کرو گے تو تمہارا نام ” حنیف عابد“ بن جائے گا ۔واہ واہ واہ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا ۔ یقین جانئے اس سے قبل مجھے اس صنعت کے بارے میں معلوم نہیں تھا ۔میرے پہلے شعری مجموعے آغاز سفر کے لئے فدا خالدی صاحب کا لکھا ہوا قطعہ تاریخ ،

فدا خالدی کی غزل آج کی جدید غزل نہیں ہے لیکن وہ محض قافیہ پیمائی بھی نہیں ہے ۔ان کی غزل اپنے اندر زندگی کی رعنائیاں ، حشر سامانیاں اورکائنات کے اسرار و رموز سموئے ہوئے ہے ۔ وہ خالص غزل کے شاعر ہیں مضامین جدید نہیں ہیں لیکن اسلوب منفرد ہے۔ دلی کی ٹکسالی زبان کے ساتھ غزل کے حقیقی مضامین کی کثرت نے فدا خالدی کی غزل کو ایک منفرد مقام بخشا ہے۔ زندگی اور کائنات کی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے فدا خالدی نے جو شاعری کی ہے وہ کمال ہے ۔ تصوف کے مضامین جس انداز میں فدا صاحب نے باندھے ہیں وہ اس خارزار کی باریکیوں کو سمجھے بغیر بیان نہیں کئے جا سکتے ۔ بلاشبہ فدا خالدی اپنی ذات میں ایک ولی صفت انسان تھے ساری زندگی وہ اسی فلسفے پر عمل پیرا رہے ۔ان کی غزلوں میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے ۔

کہاں تیری توجہ کااثر پایا نہیں جاتا
کرم کس پر بقدرِ ظرف فرمایا نہیں جاتا

مری حد نظر تک اب تجلی ہی تجلی ہے
وہاں تک آگیا ہوں میں جہاں سایا نہیں جاتا

رضا کی منزلیں ترک ِ طلب سے ہاتھ آتی ہیں
یہاں دامن سمٹ جاتا ہے پھیلایا نہیں جاتا

خدا جانے فدا کیا حشر ہو گا حشر میں اس کا
وہ دل اپنی خطا پر جس سے شرمایا نہیں جاتا

۔۔۔۔۔۔۔

کچھ بھی ہو جائے فدا دامن نہ چھوٹے ضبط کا
رازِدل کھل جائے گا،جو آنکھ تر ہو جائے گی

۔۔۔۔۔۔۔

اسے کچھ اہلِ دل ہی جانتے ہیں
جو نغمہ لب تک آکر ٹوٹ جائے

مجھے لے آئی ہے مجھ تک محبت
کھلے جاتے ہیں اب اپنے پرائے

۔۔۔۔۔۔۔

اللہ اللہ رے عظمت ترے دیوانوں کی
خاک تعظیم کو اٹھتی ہے بیابانوں کی

فدا خالدی ایک عہد تھے ان کی دریافت ابھی باقی ہے ۔ میں محمد اسلام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے نانا فدا خالدی صاحب کے حوالے سے کام کا آغاز کردیا ہے ۔یہ کتاب بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگی۔ امید ہے کہ فدا خالدی کے تلامذہ جن میں آج کے کئی نامور شعرا بھی شامل ہیں وہ بھی آگے آئیں گے اور فدا خالدی صاحب کے حوالے سے مزید تحقیقی کام کو آگے بڑھائیں گے ۔

حنیف عابد