فرسودہ دلیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
چالاک وکیلوں نے مجھے بانٹ لیا
میں جیسے ہی دنیائے فسادات میں اترا
بے رحم قبیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
شہ رگ سے خدا تک کا سفر ماپنے نکلا
ہر سانس پہ میلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
میں بھوک کے قدموں میں ابھی جان بہ لب تھا
کچھ دشت کی چیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
خوش رنگ پرندوں کے لیے جھیل تھا میں بھی
گرتے ہوئے ٹیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
انساں ہی بنا میں نہ مسلمان مکمل
ملآ ترے حیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
.میں باپ کی پگڑی کا نگہبان تھا شہ دل
پر گھر کی فصیلوں نے مجھے بانٹ لیا ہے
شاہ دل شمس