فرشتہ کالا پتھر چومتا تھا
میں پتھر دل کو تھامے بس کھڑا تھا
مرے دل میں اندھیرے چھا گئے تھے
مرے چہرے پہ سورج اگ رہا تھا
میں یوسف بن گیا تھا بھائیوں میں
میں ان کی خواہشوں پر بک گیا تھا
مرے آقا کے ہاتھوں نے چھوا تھا
تبھی فاروق اس کو چومتا تھا
مری وہ راکھ کاہے کو کریدے
میں جس لہجے سے جل جل کر مرا تھا
اسی خاطر میں کانپا تھا ذرا سا
مجھے بیٹے سے کچھ کہنا پڑا تھا
بہتر ہیں مرے اندر سمائے
ازل سے گویا امبر کربلا تھا
عبد المجید راجپوت امبر