فرض بن کر ادا ہو گئی میں
اور خود سے جدا ہو گئی میں
اک قدم جس پہ خود چل نہ پائی
ایسا اک راستا ہو گئی میں
کیسی جادو بھری تھی نظر وہ
کیا تھی اور کیا سے کیا ہو گئی میں
وہ جو سوچوں کو مفلوج کر دے
ایسا اک سانحہ ہو گئی میں
راہ بدلی ہے کیوں کیا بتاؤں
یوں سمجھ بے وفا ہو گی میں
جو بنا جرم کے مل رہی ہو
ایک ایسی سزا ہو گی میں
کچھ بھی دیکھا نہ سوچا نہ جانا
عشق میں مبتلا ہو گئی میں
عکس نے مجھ کو دیکھا کچھ ایسے
آئینہ آئینہ ہو گئی میں
جب پڑھا میں نے مومن کو تب سے
رنج راحت فزا ہو گئی میں
حمیرا راحت