فرقت کی لمبی راتوں میں اشکوں کے دیے جلاتا ہوں
ناکامئ الفت کے شکوے تنہائی میں دوہرا تا ہوں
اب توڑ کے آس امیدوں میں ارمانوں کا خوں کر کے
وہ زخم جو تو نے بخشے ہیں ان زخموں کو سہلاتا ہوں
اس آتش الفت کی حدت مجھ کو تو نہ زندہ چھوڑے گی
میں ظالم وقت کے دھارے میں تیزی سے بہتا جاتا ہوں
آئے گی کبھی نہ گلشن میں قربت کے پھول بہار لئے
اب خانہء دل میں اے بسمل فرقت کے خار سجاتا ہوں
اقبال بسمل