تفہیم غزل:
غزل کے’ فیروز اللغات ‘میں معنی ٰ عورت سے بات کرنا ہے اور ’لغات کشوری‘ میں ’’ وہ شخص جو عورتوں کے عشق کی باتیں کرتا ہے ‘۔ اور ’’کاتنا‘‘ ۔ ’’رسی بٹنا‘‘ یا ’’سوت ریشی‘‘ کے معنی درج ہیں ۔ اگر ہم ان معنوں کو تسلیم کرلیں تو سمجھنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔جیسے جن سے نکاح جائز نہیں ایسی عورتوں سے باتیں کرنے کے معنی تو نہیں ہو سکتے اسی لیے راقم کی رائے ہے تمام لغات کو از سر نو معنی صاف صاف بیان کرنا چاہیے کہ کس خاتون اور کس عمر کی خاتون کو غزل کا مرکزی خیال بنایا جانا چاہیے۔ جتنے رشتے ہوتے ہیں اتنی ہی عورتیں ہوتی ہیں۔ماں، بیٹی، بہین، بیوی، معشوقہ،ساس ، بہو ،معلمہ ، استانی یا رشتہ دار خاتون یا عزیز خواتین ان تمام عورتوں سے باتیں کرنے کا مطلب اگر غزل ہے تو اس صنف پر غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح حالی نے ’مقد مہ شعر وشاعری ‘ اور ’ یاد گارِغالب ‘میں انہوں نے غزل کی ایسی گرہیں کھولی ہیں کہ اس سے نہ صرف منظر کشی ہوتی ہے بلکہ شخصیت کی دلچسپی بھی معلوم ہوتی ہے۔ثبوت میں غزل کے یہ دو اشعار:
رضوان چو شہد و شیربغالب حوالہ کرد؛ بے چارہ بازداد دمےَّ مشکبو گرفت
رموزدیں نشنا سم درست۔ومعذورم؛ نہا دِمن عجمی و طریقِ من عربی سست
یعنی رضوان ، دارو غہٗ جنت نے جب غالب کو دودھ اور شہد پیش کیے تو بے چارے نے انہیں واپس کردیا اور مشک بوشراب لے لی‘‘لیکن حالی کی غزل کی تنقید کا اثر زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ حالاں کہ انہوں نے غزل کا کینوس بڑا کر دیا تھا لیکن کیوں کہ ہمارے نئے غزل گو شعراء نے اپنی فکر و فن کو نئی جہتوں سے آشنا کر لیا۔ یہ وقت کا تقاضا بھی تھا زمانے کی ضرورت بھی تھی اور حالات کے ساتھ خیالات کی تبدیلی بھی جو نئی سوچ کی ایجاد تھی۔لغت کشوری میں غزل کے معنی درست ہیں۔ نوجوان مرد و زن کے آپسی بات چیت ان کے درمیان راز ونیاز ‘ شکوے شکایتیں ‘ روٹھنے منانے اورملنے بچھڑے کی باتیں کرنا یا حسن و عشق کی باتیں یا و فاؤں کے وعدے کرنایہ تمام باتوں کو عشقیہ بات چیت میں آتی ہیں ۔ اگر ایسی گفتگو کو غزل کے معنی و مفہوم میں لینا درست ہے۔ غزل سے مراد معشوقہ سے ہمکلام ہو کر لطف اندوز ہونا ‘ اس کے حسن و جمال کی تعریف کرنا اور اس سے عشق و محبت کا اظہار کرنا ۔ ایسی حسی کیفیات جن سے جذباتی واردات پیدا ہوتے ہوں وہی لمحات ، احساسات، کیفیات اور جذبات غزل کہلاتی ہیں ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی نے لکھا ہے ’’ جاہلی دور کے اصناف سخن میں سب سے اہم اور ممتاز صنف غزل ہے ۔ اور اس غزل کا موضوع اور محور عورت تھی ۔ کیونکہ غزل کے معنی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی آپس کی بات چیت اور عورتوں سے لطف اندوزی اور ان سے حسن و محبت کی باتیں کرنا ہے۔ ‘‘ یہاں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ غزل اس صنف کو کہیں گے جس میں حسن وعشق یا محب و محبوب سے متعلق مضامین شامل ہوں ۔ یعنی ہجو وصال کا تذکرہ ‘ سوز و غم کا ذکر ‘ وصل معشوق کی لذت اور اس طرح کی دیگر کیفیات عشق واردات محبت شامل ہوں یعنی آنکھوں سے آنکھیں چار ہونا اور ہوش و حواس گم ہونا اور ہمیشہ حسن یار میں کھوئے رہنا :
ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی؛رہی نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی
غزل شاعری کی ایک اہم صنف ہے ۔ جو با ضابطہ منظوم ہونے سے گایا جاتاہے۔اس صنف کا آغاز دسویں صدی میں فارسی سے ہوا ۔بعد ازاں اس پر عربی ادب اثرات آگئے۔اسی اثر نے اردو میں صوفیانہ رنگ بھر دیا۔اردو غزل ایک غیر معمولی طریقہ اظہار ہے ۔جس میں بے انتہا اندرونی رومانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ غزل اپنے آپ میں تاریخی اعتبارسے ایک ادب ہے۔ اس کے متنوع جہات اور موضوعات کا احاطہ کرنا مشکل عمر تھا۔ اسی لیے راقم نے اس کو چار دبستانوں میں بانٹنے کی کوشش کی ہے۔غزل جذب و خیال، متنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ معانی کا آئینہ خانہ ہے۔ غزل میں زندگی کی سی وسعت ہے جس طرح زندگی اپنے اندر تمام موسم رنگ واقعات جذبے، تحریکیں، چہرے نظریے اور رویے سمو لینے پر قادر ہے۔ اسی طرح غزل بھی ان سب عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ جس طرح زندگی کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے۔ اسی طرح غزل کا ارتقائی سفر بھی ایک تسلسل سے جاری رہتا ہے اور زندگی کے بدلتے مناظر اور مظاہر صنف غزل کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں تاریخ ادب اردو ۱۷ءتک(جلد پنجم ) کے مرتبین پروفیسر سیدہ جعفر اور پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے
’’ غزل کی جڑیں ہماری تہذیب اور سماجی زندگی میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ سینکڑوں سال سے اردو شاعری کی روح میں سمائی ہوئی ہے فکر و احساس غزل کے سانچے میں صدیوں سے ڈھلتے آئے ہیں۔ ہر دور میں اس صنف نے ہمارے جذباتی ،ذہنی اور سماجی تقاضوں کی بڑی سچی اور بھرپور عکاسی کی ہے۔ ’’ آرائش خم کا کل ‘‘ اور اندیشہ ہائے دور دراز’’گرمی بزم‘‘ اور’’ خلوت غم‘‘،’’ دار‘‘ اور ’’ کوئے دلدار‘‘ حقیقت و مجاز اور رندی و اخلاق آموزی کی جیسی رنگارنگ اور متنوع تصویریں غزل میں ملتی ہیں۔ اس کا مقابلہ ادب کی کوئی اور صنف نہیں کرسکتی ۔ غزل اپنی ریزی کاری اور اختصاری کے باوجود بڑی جامع صنف ہے۔ یہ اس اعتبار سے بھی جامع ہے کہاس میں ماحول کی مختلف کیفیات اور انسانی فکر و احساس سے مطابقت پیدا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ غزل کا آرٹ حرکی ہے اور زندگی کی طرح حرکت و نمو میں چار بسا ہوا ہے۔غزل چوں کہ اپنے دور کی حسّیت اور تہذیب زندگی کی دھڑکنوں کے ترنم پر رقص کرتی رہی ہے۔اس لیے اس کے موضوعات ، اس کی معنویت‘ اس کی کنائیے اور اس کی علامتیں ہر دور میں نئے جلوسے دکھاتی رہی ہیں اور عہد میں انسانی مسائل کی موثر ترجمانی کرتی رہی ہیں۔‘‘
اردو غزل فارسی غزل کی مرہون منت ہے۔ ابتدائی دور کی اردو غزل پرفارسیت کے اثرات نمایاں ہیں اور اردو کا پہلا قابل ذکر غزل گو شاعر ولی دکنی کو کہا جاتا ہے۔جسے اردو کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق’’اردو غزل کی داستان کے چار ابواب ہیں پہلا باب دکنی غزل کے متعلق ہے دوسرا باب اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک کے دور پر محیط ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو اس کے آخر تک قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ تیسرا باب۱۸۵۷ء سے لے کر اقبال تک اور آخری باب اقبال کے بعد جدید دور سے متعلق ہے۔‘
لیکن تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے اردو میں جدید غزل کا آغاز غاؔلب سے ہوتا ہے۔ یوں تو خود ولیؔ دکنی اپنے زمانے کا جدید شاعرتھا اور پھر میر تقی میرؔ نے بیان کی آرائشوں سے زیادہ موضوع کی لطافتوں پر زور دے کر اپنے زمانے کے حوالے اردو غزل میں ایک اور جدید دور کا آغاز کیا۔ میر تقی میرؔ غزل کے میدان میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ انہیں غزل سے خصوصی رغبت تھی۔جس کی وجہ سے دوسری اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل میں نمایاں کامیابی ملی۔ دیگر اردو کے شعراء سے ان کا انداز بیاں منفرد تھا لیکن احساسات ا ور جذبات یکساں ہے۔ وہ بھی اپنے اندر ایک نازک و حساس دل رکھتے ہیں۔ جب کبھی انہیں تکلیف پہنچاتی ہے تو وہ بھی کرب سے چیخ اُٹھتے ہیں۔ یہی وہ غم اور تکلیف ہے ان کی غزل کی شکل میں بے حد نفاست کے ساتھ جگہ بنا لیتی ہے۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے؛ یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کو محبوب کی اَدھ کھلی آنکھوں میں شراب کا نشہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کی نشیلی آنکھوں کے دیوانے ہیں اور اسی دیوانگی نے ہی ان سے یہ شعر کہلوایا ہے۔
میر اُن نیم باز آنکھوں میں ؛ساری مستی شراب کی سی ہے
جدید غزل کا آغاز اقبال سے مانا ہے۔ کیوں کہ اردو غزل کو صحیح جدت سے آشنا کرنے اور اسے ایک فرسودہ و بوسیدہ اور اس لئے ایک ناکارہ صنفِ سخن بنا جانے سے بچانے والی شخصیت غالب کےبعد اقبال ہے۔اس ضمن میں غالب کی غزل کے ایک شعر کی تشریح پیش خد مت ہے۔ تفہیمِ غالب میں کوئی اضافہ تو نہیں کر سکتا، پھر بھی دیوانِ غالب کی پہلی غزل جسے سب سے مشکل سمجھا جاتا ہے اس کا مختصر جائزہ کچھ اس طرح ہے۔غزل کا مطلع اپنے عہد کی روایت سے مختلف ہونے نے ساتھ ساتھ منفرد ہے۔ کیوں کہ شاعر نے تنظیم دوجہاں اورانسانی تقدیر پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ اسی سے شاعر کی ذہنی حوصلہ مندی اور فکری بلندی معلوم ہوتی ہے۔کیوں سب روایت کی ہی پاسداری کرتے ہیں۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا؛
کاغذی ہے پیر ہن، ہر پیکرِ تصویر کا
مطلعے کو پڑھتے ہی غالب کا یہ شعر :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے ؛
جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے
بے ساختہ ذہن میں آ جا تا ہے اور غالب کے ’’گنجینۂ معنی کے طلسم ‘‘ کا قائل ہو نا پڑ تا ہے۔ اس شعر میں جس قدر معنوی پہلو پوشیدہ ہیں ، اسی قدر صنعتیں بھی ہیں۔ جو غالب سے قبل یہ تہہ داری کسی اور شاعری میں نہیں ملتی ۔اس شعر کی تشریح خود غالب نے اس طرح کی ہے ’’نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورت تصویر ہے، اس کا پیر ہن کاغذی ہے۔ یعنی ہستی اگر چہ مثل تصاویر اعتبار محض ہ، موجب رنج و آزار ہے ‘‘۔شعر کی گرہ کھولنے سے قبل پہلے شعر کے کلیدی لفظ کو تلاش کر یں۔ اس کے بعد گر ہیں خود بخود کھلتی چلی جائیں گی۔ زیر بحث شعر میں لفظ ’’کِس‘‘ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس کے بعد ’’نقش‘‘ اور ’’شوخی تحریر‘‘ خاص توجہ کے طالب ہیں۔ اگر ’’کِس‘‘ کو خالقِ کونین کا استعارہ تسلیم کر لیا جائے تو شعر کے معنی کسی حد تک واضح ہو جائیں گے۔ لیکن شعر کی معنو یت محدود ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ’’کِس کی‘‘ کے استفہام کا لطف بھی جاتا رہے گا۔ جو شعر کی حقیقی جاذبیت ہے۔ یہ کہے سکتے ہیں۔’’کِس‘‘ کا اشارہ خالقِ مطلق کی طرف ہی ہے کہ اس نے از راہِ شوخی تصویر کو نا پائیدار بنایا ہے، اسی لیے تصویر اپنی زبان بے زبانی سے فریاد کر رہی ہے کہ جب ہستی کو نا پائیدار ہی بنا نا تھا تو اس میں اس درجہ کمال، اس درجہ کشش رکھنا کیا ضروری تھا ؟ دنیا کی یہ رنگا رنگی یہ کشش یہ دلفر یبی اور مو ہ کیا ہے ؟ جب کہ ہر چیز فانی ہے۔
غزل کی ابتدا سے ہی یہ روایت رہی ہے کہ شعری مجموعوں کے آغا ز میں حمد، نعت اور منقبت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غاؔلب نے روش عام سے گریز کرتے ہوئے، دیوان کے پہلے ہی شعر میں تخلیقِ کائنات پر سوالیہ نشان لگایا۔ اس شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غالب کائنات کے فلسفے کو سمجھنا چاہتا ہے کہ اس کائنات کا راز کیا ہے؟ جہاں ہر شئے مجبورو لاچا ر دکھا ئی دیتی ہے اور شاید اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے کہا تھا :
سبزہ و گل کہا ں سے آئے ہیں ؟؛ابر کیا چیز ہے ؟ ہوا کیا ہے ؟
جب کہ تجھ بن نہیں کو ئی موجود ہے؛پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے ؟
اب شعر کے اس مفہوم کی طرف رخ کر تے ہیں ، جس کا ذکر عموماً کیا جاتا ہے کہ ایران میں رسم تھی کہ فریادی فریاد کے لیے کاغذی لباس پہن کر دربار میں حاضر ہوا تے تھے۔ کیوں کہ کاغذ کی کو ئی وقعت نہیں ہوتی، یہ ہوا کے تیز جھو نکے سے، آگ کی گرمی سے، حتٰی کہ ذرا سی رگڑ لگنے سے بھی تار تار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا کاغذی پیرہن فریادی کی بے بساطی کی دلیل سمجھا جاتا تھا ۔یعنی اس دنیا میں انسان کی ہستی ٹھیک کاغذی پیرہن کی طرح ہے۔ جس کی کہ کو ئی ساکھ،کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ چوں کہ مصور، تصویر کو کاغذ پر بناتا ہے، جس کا وجود عارضی اور بے بساط ہوتا ہے۔ اس لیے تصویر اپنے خالق سے جدائی کی فریاد کر رہی ہے۔
زیر بحث شعر کے دوسرے مصرعے ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا‘‘ کے ’’ہر‘‘ سے یہ گمان ہو تا ہے کہ اس سے تمام جاندار مراد ہو سکتے ہیں لیکن شعور و احساس چوں کہ صرف انسان ہی کو حاصل ہے۔ ا س لیے ’’فریادی‘‘ سے مراد انسان ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت انسان کے علاوہ دوسری کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا ’’شوخی تحریر‘‘ سے اگر انسانی ’’شعور و احساس‘‘ مراد لیے جائیں اورسا تھ ہی ساتھ فرشتوں اور تمام جانداروں کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان کی عظمت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ جو کہ خالق کائنات کی ’’شوخی تحریر‘‘ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔غالب کے بعد اردو غزل میں جدید سونچ رکھنے والا شاعر علامہ اقبال ہے ۔ انہوں نے ’ بال جبریل‘ کی غزلیات میں فنی اعتبار سے تو وہی ہے لیکن فکری اور موضوعاتی اعتبار سے عورتوں سے باتیں کرنے کی بجائے دیگر تمام مضامین باندھے ہیں۔ ثبوت میں بالِ جبریل کے ایک شعر کی تفہیم پیش خدمت ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر؛
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
یعنی پھول کی پتی سے ہیرے کو اندر تک کاٹ ڈالنا اگرچہ ناممکن کام ہے، یہ ناممکن بھی ممکن ہو سکتاہے البتہ کسی بے وقوف شخص پر نرم و نازک یعنی لطیف بات کسی صورت اثر نہیں کرسکتی۔ پہلے مصرعے میں ’پھول کی پتی سے‘ کے بعد ’کبھی‘ یا ’کہیں‘ کو محذوف قرار دینا پڑے گا۔ یعنی پھول کی پتی سے بھی کہیں ہیرے کا جگر کاٹا جاسکتاہے۔ اس شعر کی مفہومی ترتیب مصرعوں کی ترتیب کے برعکس ہے۔ مردِناداں پر نرم ونازک کلام بے اثر رہتاہے کیوں کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر نہیں کٹ سکتا۔خلاصہ : ’’مفہوم یہ ہے کہ اگرچہ میری شاعری کلامِ نرم ونازک پر مشتمل ہے ’لیکن بے سمجھ لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔‘‘اِس اسلوب میں بیان ہونے والا یہ خلاصہ ناقص ہے۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم بھی نسبتاً زیادہ قطعیت کے ساتھ متعین کیا جا سکتا ہے۔ میری شاعری کلامِ نرم ونازک نہیں ہے کیوں کہ میرے مخاطب وہ نادان لوگ ہیں جن پر ایسا کلام اثر نہیں کرتا۔یہ وضاحت اقبال کے تصورِ شعر سے بھی مناسبت رکھتی ہے۔ جو اقبال نے گویا عرفی کی اس ہدایت کی اتباع میں تشکیل دیا تھا:
حدی را تیز ترمی خواں چومحمل را گراں بینی؛نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی