غزل کی بدلتی ہئیت :
تقریبا ایک ہزار سال سے قبل غزل کا آغاز ایران میں ہوا۔ وہاں فارسی زبان میں ہی اس صنف کا استعمال کیا گیا۔بادشاہوں، امیر امراوو وغیرہ کی تعریف میں لکھے جانے والے قصیدے کی زبان اولاً تو فارسی ہوئی۔ ایران کے شعرائے کرام میں اس کی تشبیب کو قصیدے سے الگ کر کے اس کا نام غزل رکھا۔ [53]مغل بادشاہ ہندوستان میں داخل ہوتے ہی فارسی تہذیب کا چلن پیدا ہوا۔یہاں تک کہ خانگی کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی فارسی کر دی۔ اس سے قبل شورسےنی اپبھرنش کا استعمال تھا ۔جو عام بول چال کی زبان نہ ہوکتابی زبان تھی۔ جو سنسکرت سے ہو کر نکلی تھی۔ جب عدالتی زبان اور سرکاری کام کاج کی زبان فارسی بنی تو لوگوں کو مجبورا ًفارسی سیکھنی پڑی۔ یہاں کے شاعروں نے بھی مجبوراً اسے سیکھا اور غزل سے ہاتھ ملایا۔ یہ سب حکمران مسلم تھے اسی لیے انھوں نے مذہب اور فارسی کا خوب فروغ دیا۔اس طرح یہ سلسلہ صدیوں چلتا رہا۔
غزل کا سب سے بڑا نمائندہ ولیؔ دکنی تھا۔ لیکن اس سے قبل بہت سے دکنی شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی ، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ بعدکے شعراایہام گو ہیں۔ جنہوں نے فنی اور فکر ی حوالے سے غزل کو تہذیبی روایات سے قریب کیا۔اس کے بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک کا آغازمظہر جانِ جاناں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا پھر بھی وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔
میر تقی میرؔ او ر سودؔا نے اردو غزل کے موضوعات اور اس معنویت بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی۔ انہیں کےساتھ نئی تہذیب اور اسلوب کا اعجاد ہوا۔اس عہد کی غزل میں ہندوستانی ثقافت نظر آتی ہے لیکن وہ بھی ہندی ایرانی کلچر سے مآخذ ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ہندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔ یہ عہد غزل کا زریں کا دور کہلاتاہے ۔ کیوں کہ سودا کی غزلیات کا ایک حصہ خارجیت، معنی آفرینی، خیال بندی، تمثیل نگاری، سنگلاخ زمینوں میں سخن تراشی، قصیدے جیسے انداز اور بیان پر مشتمل ہے، وہیں دوسرے حصے میں جو تجربات اور پُر خلوص جذبات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں ، جدائی کا کرب، محبوب کو کھو دینے کا غم، زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔یہی کیفیت تقریباً تمام شعراءکےکلام میں بدرجہ اتم ہے۔اردو کے ہر شاعر کے کلام میں غمِ جاناں سے پُر نظر آتا ہے۔ زندگی کے مسائل اپنی جگہ اور محبت کی تلخی اپنی جگہ ہے۔
دبستان ِ لکھنو میں غزل کی بدلتی ہئیت مصحفی ، انشاء، رنگین اور جرات سے ہوتی ہے۔ثبوت میں انشاء کی ایک مقبول غزل’ کمر بندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یا بیٹھے ہیں‘‘ لکھا ہے۔ یہ غزل انہوں نے جوانی میں لکھی۔ لیکن اس غزل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سن رسیدہ اور تجربہ کا ر عمر میں قلم بند کیاہے۔ اس غز ل سے متاثر ہو محمد حسین آزادؔ نے یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ انشا کی آخری عمر کی تصنیف ہے۔ کیوں کہ اس غزل کا مزاج لب و لہجہ دبستان دہلی کی ہی دین ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کمر بندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
؛ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھڑا اے نکہت باد بہادی راہ لگ اپنی؛
تجھے انکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام کیا شے ہے؛
غرض روپیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے؟
انشاؔ؛ غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
ان ہی شعراء نے پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر غزل گوئی کی۔ اسلوب اور موضوعات نئے تھے۔ لکھنو کا دوسرا دور آتش اور ناسخ کا ہے ۔اس میں پچھلی روایت کے برعکس نئی اقدار کو مضبوط کیا گیا۔ یہاں سے غزل میں تصورِ محبوب اور اس کی شخصی معنویت میں تیزی تبدیلی شروع ہوگئی۔ اس سے قبل کی پاکیزگی کا جو تصور تھا اس میں بھی بہت سی دراڑیں پڑ گئیں۔اس طرح کی ہلکی پھلکی روایتی تبدیلیوں کے بعد غزل میں اچانک بہت بڑے پیمانے میں تبدیلی غالب کےدو رآگئی۔اسی عہد سے ایسی غزل کا آغاز ہوا جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتی تھی۔جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا ، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات پر غزل کہی جانے لگی۔
1857ءکے بعد غزل میں کلاسیکی عمل کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی رام پور کا دور شروع ہوتا ہے جس میں داغ دہلوی، امیر ، جلال اور تسلیم جیسے اہم شعراء نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ اس ضمن میں جلال انجم کا خیال ہے’’ سینکڑوں شاعر دہلی چھوڑ نے پر مجبور ہوگئے کچھ نے رام پور کی راہ لی اور کچھ لکھنو جا نکلے ۔یہی وہ دور ہے جس میں دبستان لکھنو اور دبستان دہلی دو الگ الگ دبستانوں کی شناخت قائم ہوئی۔ دو مختلف علاقوں میں غزل کے فرق کو پرکھا جانے لگا۔ اس میں ایک طرف تو ناسخ و آتش نے غزل کو پری پیکر کا روپ دیا تو دوسری طرف ذوق غالب اور مومن نے اپنی ذہانت اور ہنرمندی سے غزل کے فن کو نکھارا اور وہ اسلوب اختیار کیا کہ غزل کے اپنے مخصوص اور محدود دائرے کو ترک کرکے اسے کشادہ اور وسیع تر بنادیا اور اسی طرح غزل کا سکہ سورج کی روشنی کی مانند سارے عالم پر غالب ہو گیا۔‘‘
غزل کا جدید دور:
مقالہ کا یہ حصہ جدید غزل گو شعرا کی بدلتی ہئیت اور ان کی معنویت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں ہم نے نمائندہ اردو کے جدید غزل گو شعراء کا ہی احاطہ کیا ہے۔ اس سلسلہ کی کڑی کا آغاز مولانا مولانا الطاف حسین حالی ؔسے ہوتا ہے۔ انہوں نے جدید غزل کی بنیاد رکھی تاکہ غزل میں فحاشی اور عریانیت یا صرف محبوب کا ذکر ہویا خواتین کے حسن و عشق کی باتیں نہ ہو ۔ ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس صنف کے ذریعہ انسانیت اور اخلاقیت پیدا ہو سکیں۔ اس لیے انہوں نے غزل گوئی کی پچھلی روایت سے منفرد ہے غزل کی داغ بیل ڈالی۔ اسی لیے ہم نے جدید غزل میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ روایتی خیالات اور سابق شعرا کی بیان کی ہوئی باتوں کو مختلف الفاظ میں دہرانے سے گریز کیا جائے۔ حقیقت نگاری، جدید غزل کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ جدید تازہ موضوعات زیادہ تر شہری زندگی کے مسائل اور پیچیدگیوں سے اخذ کیے ۔ ان مسائل کے بیان اور غزل کا چہرہ مہر ہ نیا کرنے کے سلسلے میں ایک رجحان جدید تمدنی مظاہر کے استعمال کا بھی ہے۔ روایتی غزل تشبیہوں، استعاروں، علامتوں ، اشاروں، کتانیوں کے حصول کے لیے عموماً یا تو بزم کی طرف رجوع کرتی ہے اور مے خانہ ،محفل ، دربار وغیرہ کے تلازمات کو استعمال کرتی ہے، یا فطرت کی طرف دیکھتی ہے اور چمن ، دریا ،پیاڑ ، صحرا وغیرہ اور ان کے متعلقات سے ا ستفادہ کرتی ہے۔ روز مرہ زندگی کی اشیاء و مظاہر کی طرف بھی اس کا میلان رہا ہے لیکن جدید دور میں آکر بھی اکثر شعرا زیادہ تر انھی اشیا و مظاہر کا استعمال کرتے رہے جو فارسی غزل سے مستعار یا اٹھارویں اور انیسویں صدی کے تمدن سے متعلق تھے۔ جدید غزل نے اس رویے میں بھی تبدیلی پیدا کی اور جدید تمدنی مظاہر کو غزل میں رواج دینے کی کوشش کی ۔ اس سلسلے میں ناصر کاظمی کے ہا پہلی مرتبہ نمایاں طور پر شہری زندگی اور اس کے متعلقات کا ذکر ملتا ہے اور پھر یہ سلسلہ ا گر چہ سست روی کے ساتھ آگ بڑھتا ہے۔ [56] یعنی شاعر اپنے شخصی احساسات اور اپنے شخصی مشاہدات اور کیفیات کو اشعار میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زبان اور الفاظ پر سارا زور حرف کرنے کی بجائے خیال کی تازگی اور نُدرت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ جدید غزل بنیادی طور پر دل کی باتیں بیان کرنے کا فن ہے۔ احساس کی صداقت ، جذبہ کی گرمی، اندازِبیان کی لطافت، اور شعر کی نغمگی، یہ وہ خصوصیات ہیں جو غزل کے شعر میں تاثیر پیدا کرتی ہیں۔خواہ یہ اشعار وارداتِ عشق سے متعلق ہوں، یا سیاسی اور سماجی مسائل سے ہوں۔ ثبوت میں حالی کی غزل ملاحظہ فرمائیں:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں ؛
مجھے کہنَا ہے کچھ‘ اپنی زباں میں
قفس میں جی نہیں سکتا کِس طرح
؛ لگا دو آگ کوئی‘ آشیاں میں
کوئی دن بوالہو س بھی شاد ہولین؛
دَھر اکیا ہے‘ اشارات نہاں میں
نیاہے لیجئے جب نام اُس کا؛
بہت وسعت ہے میری داستاں میں
دل پُر درد سے کچھ کام لوں گا؛
اگر فرصت مِلی مجھ کو‘ جہاں میں
بہت جی خوش ہوا حالی ؔ سے مل کر
ابی کچھ لوگ باقی ہیں جہَاں میں
یعنی حالی اپنے شعر میں کہتے ہیں میرے احساسات اور جذبات کو سمجھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس دنیا میں کوئی میرا محرم یا رازداں نہیں ہے۔ میری زباں ھال کو سمجھنے والا کوئی نہیں ۔ میں اس بھری دنیا میں تنہا ہوں۔ اور غزل کے آخری میں کہتے ہیں بظاہر خود اپنا ذکر کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا شعر ہے جو اکثر اوقات کسی قابل قدر انسان سے ملنے کے بعد ہمارے ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ابھی دنیا میں ایسے پاکیزہ فطرت انسان موجود ہیں۔ پہلی نظر میں ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کسی انسان کی سیرت اور شخصیت میں کیا باتیں چھپی ہوئی ہیں۔اگر قریب سے دیکھنے اور ملنے کا موقع ہو تو کسی غیر معمولی اور قابلِ قدر انسان کا جوہر ہم پر کُھل جاتا ہے ۔