فروغِ اردوغزل کے اہم شعرا ء اور ان کی  تحریکات:

علامہ اقبال کی غزل گوئی :

اقبال کی نظموں کی طرح ان کی غزلیں بھی اردو کے دوسرے شاعروں کی غزلوں سے بہت مختلف ہیں۔ ایک تو موضوع کے اعتبار سے ، دوسرے زبان وبیان کے اعتبار سے ، تیسرے لہجے کے اعتبار سے اقبال کی غزلوں کا موضوع یا تو ان کا خاص فلسفہ زندگی اور فلسفے سے تعلق رکھنے والے اجزاء مثلاً خودی ، عشق، عقل ، عمل نقر، تقدیر، شاہین وغیرہ سے متعلق خیالات ہیں یا قوموں کے عروج و زوال ، مشرق و مغرب کے فرق، قو اور بین الاقوامی حالات پر تبصرہ حالات پر تبصرے، تاریخ اسلام اور تاریخ انسانی پر تنقید ، فلسفہ و حکمت کے متعلق باریک باتیں غرض کہ موضوعات کے اعتبار سے قبال کی غزلوں کی دنیا اردو کے دوسرے شعراء کی دنیا سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ اقبال نے جو زبان و بیان کا استعمال کیا ہے وہ کسی اور شاعر سے مختلف ہے۔
اس کے بعد  اقبال نے اس روایت کو آگے بڑھا یا۔انہوں نے حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں اقبال اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے غزل کی مرکزی فکر کو فطرت اور کائنات سے جوڑا۔اس کے بعد سے غزل میں اتنی وسعت پیدا ہو گئی کہ وہ حقائق کی عکاسی ہو یا عصری معنویت ہو ہر ایک میدان کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ جیسے  انسان ، خدا ، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب کی سب آج غزل میں موجود ہے۔ اقبال کی ابتدائی غزلیات کو چھوڑکر عام شاعروں کی طرح عشق و محبت اور ہیر و وصال کی باتیں نہیں  کیے۔ وہ ایک فلسفی شاعر ہے۔ انہوں نے انسانوں کو آزادی، عزّت اور خود داری کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم  اپنی غزلوں کے ذریعہ دی ہے۔انسان کو چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے سرگرداں رہنے کی بجائے ‘ اعلیٰ نصب العین اور اعلیٰ مقاصد کے لیے جدو جہد کی تلقیس کرتے ہیں۔ وہ خودداری اور  دلیری کی مختصر زندگی کو بُزدلی اور بے غیر تی کی طویل زندگی کے مقابلے میں ترجیحی دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی ‘ بھیڑوں کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ جو شخص اعلیٰ انسانی قدروں کا احترام کرتا ہے‘ اور ان کے لیے سینہ سپر ہوجاتا ہے ‘ وہی ان کے نذدیک اعلیٰ انسان ہے۔ اس فکر پر مبنی اقبال کی یہ  غزل ملاحظہ فرمائیں:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی؛
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی‘آدابِ سحر خیزی

کہیں سارمایہٗ محفل تھی‘ میری گرم گفتاری؛
کہیں سب کر پرشیان کر گئی ‘میری کم آمیزی

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھو ں میں ہو‘ پھر کیا ؛
طریقِ کوہ کَن میں بھی‘ وہی حیلے ہیں پرویزی

جلالِ پادشاہی ہو‘کہ جمہوری تماشاہو؛
جُدا ہو دیں‘ سیاست سنے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سَوادِ رومتہ الکُبریٰ میں ‘دِلّی یاد آتی ہے
وہی عبرت‘وہی عظمت ‘ وہی شانِ دِل آدیزی

 اقبال نے اس غزل کے ابتدا میں لندی کی سخت سردی  کا ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا  ہے کہ اس سخت سرد موسم بھی مشرقی تہذیب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ دوسرے شعر میں انہوں نے اپنی جوانی میں اپنی حاضر جوابی کا ذکر کیا ہے ۔ جس سے مغربی عوام متاثر تھی۔ تیسرے شعر میں شاہی بادشاہوں کی حکومت، اشتراکیت اور مزدوروں کی حکومت کے ساتھ مقا بلہ  کی عکاسی کی ہے۔جس میں خاص کر مزدوروں کے استحصال پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔یہی سلسلہ چوتھے شعر میں بھی ہے۔  ساست اور حکومت ‘ دِین اور مذہب سے بے نیاز ہو جائیں‘ تو ایسی حکومت‘ چنگیزی کی حکومت ہو کر رہ جاتی ہے۔آخری شعر میں روم‘ جو موجودہ اِٹلی کا یا یہ تحت ہے‘ دنیا کے نہایت قدیم‘ پُر شُکوہ اور عجیب و غریب شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
 یہ شہر ۷۵۲ قبل مسیح میں آباد ہواتھا۔ اور صدیوں تک عظیم مملکت روم (رومَن امپائر) کا درالخلافہ تھا۔ اور اس زمانے میں دنیا کا سب سے زیادہ متمدن اور شاندار شہر تھا۔ اس شہر کے قدیم اور پر شوکت تاریخی آثار آج تک موجود ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ رومتہ الکُبریٰ ’’ گریٹ روم‘‘ اسی نام سے یہ شہر موسوم تھا) کی نواح میں‘ گھومتا ہوں‘ اور اس شہر کے کے عظیم اور حسین تاریخی آثار کو دیکھتا ہوں۔ تو اپنے وطن کے دارالحکومت ‘ دہلی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ دہلی بھی روم کی طرح نہایت قدیم شہر ہے ‘ اور ہزاروں سال سے ‘ ہندوستان کی مختلف حکومتوں کا دارالخلافہ رہا ہے۔ ماضی کی وہی عظمت ‘اور دل کشی جو دلّی میں نمایاں ہے ، روم میں بھی نظرآتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ عبرت کا ایک شدید احساس بھی‘ ان دونوں شہروں کے تاریخی آثار کو دیکھ کر دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔اقبال کے بعد جدید غزل گو شعراء میں ایک مقبول و معروف نام حسرت موہانی ہے۔ ان کی علمیت کی وجہ سے انہیں غزل گو شعرا کا امام تسلیم کیا گیا ہے۔ کیوں کہ ان کی غز ل گوئی میں سادگی اور پُرکاری ملتی ہے۔ان کی شاعری میں محبت کا ایک لطیف اور حقیقت پسندانہ تصور ملتا ہے۔ ثبوت میں ان کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
زمانِ فصلِ گُل آیا‘ نسیم مُشک بارآئی
؛دلوں کو مُژدہ ہو‘ پھر جو شِ مستی کی بہارآئی

پھلا پھلارہے گلزار‘ یارب‘ حُسنِ خو باں کا؛
مجھے اِس باغ کے ہر پھول سے خوشبو ئے یار آئی

تری محفل سے ہم آئے ‘ گر باحالِ زار آئے
؛تماشا کا میاب آیا‘ تمنا بے قرار آئی

جو‘ اُن کے حُسن سے بھی بڑھ گئی ہے‘ بے قراری میں؛
تڑپ ایسی کہاں سے عشق میں ‘ پروردگار‘ آئی

یہ کیا اندھیر ہے ‘ اے دشمنِ اہل ِ وفا تُجھ سے
؛ہوس نے کام جاں پایا‘ محبّت شرم سار آئی

بجا ہیں کوششیں ترکِ محّبت کی ‘مگر حسرؔت
جوپھر بھی دِل نورازی پر‘ وہ چشم سحرِ کار آئی!

حسرؔت نے پہلے شعر میں موسم بہار اور باد نسیم خوشبو کے جھونکوں سے لدی ہوئی آرہی ہے ۔ شاعر کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے کہ جذبہٗ عشق میں بھی بر کی ایک لہر تازہ لو جائے گی کا تصور پیش کیاہے۔ دوسرے شعر میں فریاد ہے اے خدا حسینوں کا یہ گلزار پھلا پھلا ہے‘ اور حسن کی تازگی اور نکھار ہمیشہ قائم رہےمجھے باغ حُسن کے ہر پھول‘ یا دوسرے الفاظ میں حُسن کے ہر پیکر سے‘ محبوب ہی کی خوشبو آتی ہے۔ تیسرے شعر میں ہم تیری محفل سے نام لوٹے، ہمارے حالت زات تم نے نہیں دیکھی افسوس کہ تماشا کرنے والوں اور بل ہو سون کی آنکھیں توٹھنڈی ہو گئیں‘ اور عاشقِ صادق کو اپنی ناکام تماؤں کے ساتھ واپس ہونا پڑا۔ چوتھے شعر میں محبوب کی یاد میں دل ِ ایک مستقل تڑپ سے دوچار ہے ۔ اس تڑپ میں جو کیف اور لُطف ہے‘ وہ محبوب کے حُسن سے بھی زیادہ دلکش معلوم ہوتا ہے۔ اسے خدا تو نے ایسی حسین خلش میرے دِل میں کہاں سے پیدا کردی۔ پانچویں شعر میں شاعر کہات ہے کہ محبوب مجھ جیسے وفادار عاشقوں کا دشمن ہے ۔ بل ہوس اُس کے نظارے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں۔ اور سچّے عشق کو نا کام اور شرم سار ہونا پڑتا ہے اس طرح آخر شعر میں محبوب کی جفاؤں سے تنگ آکر میں نے طے کیا ہے کہ محبت سے ہمیشہ کے لئے رشتہ توڑ لوں لیکن اس کو کیا کروں کہ اگر پھر ایک بار اسی کی سحرکا آنکھیں میرے دل کو رِجھا نے لگیں۔

فاؔنی بدایونی:
شوق سے ناکامی کی بددلت کو چہٗ دل ہی چھوٹ گیا؛
ساری اسیریں ٹوٹ گئیں ‘دل بیٹھ گیا‘ جی چھوٹ گیا

فضلِ گُل آئی‘ یا اجل آئی ‘کیوں درِ زندان کھلتا ہے؛
کیا کوئی وحشیِ اور آپہنچا‘ یا کوئی قبدی چھوٹ گیا

لیجئے کی ادامن کی خبر‘ اور دستِ جنوں کو کیا کہیے؛
اپنے ہاتھ سے دل کا دامن ‘ مت گزری چھوٹ گیا

منزِل عشق پہ تنہا پہنچے‘ کوئی تمنّا ساتھ نہ تھی؛
تھک تھک کر اِس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا

فانیؔ ہم تو جیتے جی‘ وہ میّت میں بے گور و کفن!
غُربت جس کو راس نہ آئی‘ اور وطن بھی چھوٹ گیا

ایک تبصرہ چھوڑیں