غزل
فریب شوق نہ دے وقف امتحاں نہ بنا
مری طلب کو بس اب اور بھی گراں نہ بنا
عطائے دوست ہے یہ جنس رائیگاں نہ بنا
تجھے جو درد ملا ہے اسے فغاں نہ بنا
بنانا چاہے تو اب بجلیوں سے دے ترتیب
چمن میں اب کبھی تنکوں کا آشیاں نہ بنا
کبھی وہ فائز جلوہ ہے اور کبھی محروم
مجھے خود اپنے ہی دل سے تو بد گماں نہ بنا
سبھی کو ہو گیا اب تیرے عشق کا دعویٰ
کہا تو تھا کہ محبت کو داستاں نہ بنا
ہلاک درد محبت مجھی کو رہنے دے
نگاہ ناز کو غارت گر جہاں نہ بنا
رہا عذاب میں دل کا معاملہ میکشؔ
رہ وفا میں کوئی بھی تو رازداں نہ بنا
استاد عظمت حسین خاں