غزل
فصیل شہر سے نکلو بھلا اسی میں ہے
کہ زلزلوں کی حکومت گلی گلی میں ہے
دیا کہیں بھی جلانا مجھے خبر کرنا
مرے لہو کا اجالا بھی روشنی میں ہے
وہ مسکرا کے خدا کا پتا بتاتا ہے
نہ جانے کون سا جادو اس آدمی میں ہے
چلا ہوں موت کے پیکر کو قتل کرنے مگر
یہ وصف خاص تو خود میری زندگی میں ہے
دریچے اپنے کھلے رکھنا شب کے پچھلے پہر
سنا ہے عشق کا انداز چاندنی میں ہے
قیس رامپوری