Fizzaoo say Guzarta Ja Raha hoon
غزل
فضاؤں سے گزرتا جا رہا ہوں
خلاؤں میں بکھرتا جا رہا ہوں
میں ریگستان میں بیٹھا ہوں لیکن
سمندر میں اترتا جا رہا ہوں
زمانہ لمحہ لمحہ جی رہا ہے
میں لمحہ لمحہ مرتا جا رہا ہوں
وہ جتنے دور ہوتے جا رہے ہیں
میں اتنا ہی سنورتا جا رہا ہوں
چلا ہوں اپنے سے دو ہات کرنے
مگر خود سے بھی ڈرتا جا رہا ہوں
میں نقطہ بن کے اک مرکز پہ یارو
نہ جانے کیوں ٹھہرتا جا رہا ہوں
مٹانے پر بھی میں اردو کی مانند
سنورتا اور نکھرتا جا رہا ہوں
میں کالی جھیل میں ڈوبا تھا خود ہی
مگر خود ہی ابھرتا جا رہا ہوں
میں قیصرؔ اپنی آنکھوں سے ٹپک کر
کسی دل میں اترتا جا رہا ہوں
قیصر صدیقی
Qaiser Siddiqui