فلک سے رابطہ ٹوٹا زمیں پہ آن پڑے
جہاں سے اڑ کے چلے تھے وہیں پہ آن پڑے
حضورِ عشق ہماری خرد کے مفروضے
جو "ھو” کا راز کھلا تو ہمیں پہ آن پڑے
یہ جب سے ہم پہ ہماری ہی خاک کھلنے لگی
یہ خواہشات کے پربت زمیں پہ آن پڑے
وہ جن کے لب پہ تھی” ہاں ہاں” بصبح روزِ الست
فنا کی گود میں بیٹھے” نہیں” پہ آن پڑے
مری طلب در ساقی پہ محوِ رقص ہوئی
شکن زمانے کی یہ کیوں جبیں پہ آن پڑے
نگاہِ عفو ہو مرشد کہ تیرے خانہ بدوش
مکاں کو چھوڑ کے اب تو مکیں پہ آن پڑے
ثمر خانہ بدوشؔ