تحریر و تحقیق۔ ڈاکٹر دانش عزیز
’’ فکر‘‘ کے معنی سوچ بچار ، عاقبت اندیشی، اِضطراب ، پریشانی کے لئے جاتے ہیں ۔ نفسِ مضمون کو سامنے رکھا جائے تو ہماری آج کی گفتگو کا دائرہ’’ سوچ بچار، اور عاقبت اَندیشی‘‘ کے گرد گھومے گا۔’’ سوچ بچار‘‘ کے لیے سب سے پہلے مسئلے یا وجہ کا تعین ضروری ہوتا ہے ۔جب تک ہم درپیش مشکل کی جزیات کا احاطہ نہیں کر پائیں گے تب تک اس کے حل کا اِدراک غیر ممکن بات ہے۔ اب سوچ بچار کے لیے بھی کچھ طے شدہ اصول و ضوابط ہیں کہ کسطرح سوچا جائے ، کیا سوچا جائے ، کتنا سوچا جائے، کہاں تک سوچا جائے، کب سوچا جائے، کب تک سوچا جائے۔ سوچنا، سوچ میں پڑھنا اور سوچوں میں گم رہنا بہت فرق رکھتا ہے۔ اہلِ عقل ودانش نے سوچ کے مختلف درجات کا نہ صرف تعین فرمایا ہے بلکہ اس کے مفی اور مثبت پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ تفصیلی گفتگو آگے چل کر کرتے ہیں۔ اب آتے ہیں’’ عاقبت اندیشی‘‘ کے معنی و مفہوم پر یہ بظاہر دو الفاظ کا مجموعہ ہے مگر اتنے تفصیلی مفہوم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے کہ الگ سے ایک ذخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت اس لفظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عاقبت اندیشی کیا ہے ؟ عام لغوی معنی ہیں ’’ انجام کار کو سوچنا‘‘ ، دور بینی، آخر بینی، انجام بینی، انجام کو سوچنا وغیرہ۔ یہ سوچ کا وہ پہلو ہے جہاں آنے والے حالات کا ادراک ہونا بہت لازم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں خود شناسی سے لے کر خود تعمیری کا سفر شروع ہوتا ہے یہاں اشد ضرورت ہوتی ہے رہنما اصولوں کی ، شخصی رہنمائی کی، خود شناسی کی اور تفہیمی عمل کے ارتقا ء کی۔ درج بالا تفہیمی بحث ہمیں کافی حد تک ’’ فکر‘‘ کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ فکر درحقیقت اسی تفہیمی ادراک کا نام ہے ۔ فکر کارے حیات ، کارِ جہاں اور کارے دنیا سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔یہ فکر آگہی کا سفر ہے۔ یہی فکر آنے والے وقت سے آگاہی اور گزشتہ کے محاسبے کا طریقہ بتاتی ہے۔ یہی فکر انسان کو انفرادی پہنچان دینے کے بعد اجتماعی ابلاغ عطا کرتی ہے۔ یہی فکر مالکِ حقیقی اور جہانِ حقیقی تک نہ صرف رسائی کا بندوبست کرتی ہے بلکہ مقامِ فیض کا اصلی تعارف مہیا کرتی ہے۔اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’اقبال‘‘ کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور فکر کے حوالے سے انسانی تاریخ میں بطور مفکر ، مفسر، شاعر، لیڈر، مقرر، یا ایک عام انسان کے ان کا مقام کیا ہے؟ فکر و آگہی میں اِن خدمات کیا ہیں ؟ اقبا ل کی شخصیت کے تعین کو ضروری ہے کہ پہلے ہم ان کے ہمہ جہت پہلووں کی ارتقائی ترتیب کو جاننے کی کوشش کریں۔ اقبال بنیادی طور پر فطرت پسند اور کائناتی حسن کے دلدادہ انسان تھے۔ مضامینِ فطرت، مظاہرِ قدرت، اور تخلقِ انسانی ان کا پسندیدہ ترین موضوع۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اظہار کے لیے شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ اب اِقبال کے سامنے دو راستے تھے یا تو حسنِ جاناں سے متاثر ہو کر لب و رخسار کو موضوعِ سخن بناتے اور روائتی عشق و محبت کے قصیدے رقم کرتے، دوسرا راستہ تصّورِ تخلیقِ کائنات، انسانی تخلیق کی ضرورت، اہمیت اور جامعیت کا احاطہ کرتے ہوئے منتشر، مرکز سے ہٹی ہوئی، غافل اور بے راہ رو قوم کو اس کی وجہہِ تخلیق اور تصّورِ ذات سے آگاہی دینا تھا ۔ اقبال نے دوسرے اور مشکل ترین راستے کا انتخاب کیا۔ پہلے تو ایک لمبی عمر اِس اِدراک میں گزاری کے بالعموم انسان کا اور بالخصوص مسلمان کا بنیادی مسئلہ ہے کیا ؟ اور اِس کا حل کیا ہے۔ خودی کا پیغام کیا ہے ؟ رمزِ بے خودی کیا ہے ؟تہذیب و تمدن کی اصل اساس کیا ہے؟، توقیرِ آدمیت کیا ہے؟ تحقیرِ انسانی کے عوامل اور وجوہات کیاہیں ؟ اِقبال کے ہاں مربوط نظریہءِ حیات و کائنات ایک قیمتی خزانے کی حثیت رکھتا ہے ۔ اقبال کے ہاں غالب ذریعہ اظہار شاعری ہی تھا وہ اظہار کے لیے نثری استدلال کو موزوں ہی نہیں سمجھتے تھے ۔ اسی لیے ان کے افکار نثری صورت میں چیدہ چیدہ ہی نظر آتے ہیں ۔ اقبال کے ہاں’’ رازی‘‘ ،’’ بو علی‘‘ اور’’ رومی‘‘ سے متاثر ہونے کا اگر منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو’’ رومی‘‘ کے عارفانہ افکار غالب نظر آتے ہیں۔
فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
یہ مصرع نہیں اقبال کی زندگی کااصل فلسفہ ہے۔ یقیناً اقبال کی ذہنی وسعت کا تعین اور افکارِ اقبال کی تشکیل کو فطرت نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔ اسی لیے اقبال کے مستند ذریعہ اظہار یعنی شاعری کے لفظ لفظ میں ثروتِ افکار بدرجہ اتم جلوہ افروز ہے ۔مشہور انگریزی شاعر ٹینی سن کہتے ہیں کہ ’’جس شاعری سے ملت کا دل قوّی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعمالِ حسنہ میں شمار کیا جانا چاہیے‘‘ اقبال کی شاعرانہ جبلت کو مولانا میر حسن کی موجودگی اور رہنمائی نے اور اجاگر کیا۔ مگراقبال کے زمانہ طالبعلمی کے ارتقائی یا ابتدائی تخلیقی نمونے بہت کوشش کے باوجود میسر نہ آسکے ۔اقبال جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے اس دور میں حالی، آزاد، ارشد گورکانی، محمد دین فوق، اور بالخصوص داغ وہ چشمے تھے جس نے اقبال اپنی ادبی پیاس مٹانے کی ہر ممکن سعی کرتے رہے ۔ آغاز میں اقبال کی شاعری میں داغ کا اسلوب ، انداز اور لفاظی نمایاں نظر آتی تھی جو بانگِ درا میں کچھ تخلیقات سے محسوس بھی ہوتی ہے ۔ لیکن بہت جلد اقبال کے ہاں منفرد اور الگ
اسلوب نظر آنے لگا جیسے بہت اوائل کے اس قطع کو ملاحظہ کیجئے۔
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ اِنساں
کہاں جاتا ہے، آتا ہے کہاں سے
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
یہ وہ دور تھا جب اقبال کے ہاں ارتقائے فکر کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ عشقِ مجازی، غمِ ہستی، غمِ دوراں کی آمیزش نظر آتی ہے۔ مگر غالب عنصر تصوّف، راست بیانی، اور حکیمانہ مضامین کا تھا۔ یہ دور تھا جب اقبال آفاق اور اس کے مظاہر جیسے مضامین سے مذّین شاعری فرما رہے تھے
یہاں ’’ ھوالظاہر ھوالباطن ‘‘ کی بحث جڑ پکڑ چکی تھی
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردہ ءِ محفل ہو کر
اقبال اس دور میں اس یقین کے پر وردہ تھے کے کسی بھی نجات دہندہ کا انتظار زندہ قومیں نہیں کیا کرتیں بلکہ یہ شکست خوردہ ، اور ہاری ہوئی قوموں کا وتیرہ ہوا کرتا ہے ۔غالب اور داغ کے اسلوب سے متاثر ہونے کے باوجود اقبال تقلیدی اور روائتی شاعری سے ہٹ کر ایک نئی جہت کی بنیاد رکھ رہے تھے جس میں زندگی، فطرت، آگہی، خودی، پہچان جیسے موضوع چھائے ہوئے تھے یہ 1905 کا دور تھا ۔ حالی، آزاد، داغ، غالب ،حتیٰ کہ ناسخ تک کا اقبال نے بہت گہرا مطالعہ کیا۔ سید، حالی ، آزاد، ،شبلی،نذیر احمد، اور دیگر کچھ نمایاں قلمکار بہت خوب اور اچھوتا لکھ رہے تھے مگر ایک بات کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی وہ تھی ان سب کا انگریزی زبان پر عبور نہ ہونا ۔ اس کمی کو اقبال نے دور کیا اور اردو، فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھرپور عبور حاصل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فارسی اور اردو میں مناظرِ فطرت اور مظاہرِ فطرت کی شاعری ناپید تھی جبکہ دوسری جانب انگریزی شاعری کا تمام تر دھیان ہی فطرت اور اس کے مظاہر پر تھا۔ اس دور میں گلزار و کوہسار، جوانمردی، جانبازی، قبائلی اقدار، گل و بلبل ، عارضِ جاناں، لب و رخسار، گیسو و آنچل کے موضوعات کی بہتات تھی۔ایسے میں اقبال کا فطرت اور مظاہرِ فطرت سے اردو اور فارسی کو نئی جہت دینا میدانِ شاعری میں کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اقبال نے اس دور میں بہت سی مقبول اور عمدہ مضامین پر کہی گئیں نظموں کا اردو فارسی میں ترجمہ کیا جن میں سے آج تک زندہ و جاوید رہنے والی دعا
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی مانند ہو خدایا میری
بہت بڑا ثبوت ہے ۔ اسی دور میں اقبال کے یورپ کے سفر نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ تیس سال کی عمر میں اقبال ذہنی طور پر بہت پختہ ہو چکے تھے۔ بانگِ درا کے پہلے بیشتر صفحات پر موجود نظمیں اسی دور کے مشاہدوں کی کہانیاں بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ اقبال کے شاعری میں یہاں عقل اور دل کے مضامین میں مباحثہ شروع ہو چکا تھا ۔ دل کی بصیرت اور وجدان کے حسی ادراک ، حب الوطنی، خودی ، تصوف، عرفانِ ذات اور اس طرح کے کئی استدلالی موضوعات پر شاعری کرتا مختلف اقبال سامنے آچکا تھا۔ فکرِ اقبال کے باقی پہلووں پر بھی مرحلہ وار گفتگو کرنے سعادت حاصل ہوتی رہے گی مگر آج کے اس مباحثے میں اقبال کے عقل کے متعلق تصور کو پہلی قسط کے طور پر پیش کرنے کی
سعادت حاصل کرتا ہوں ۔
دل یہ کہتا ہے کہ اسکا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
عقل مبتلائے شکوک و شبہات اور دل منکرِ تشکیک اور طا لبِ ایمان و یقین ۔ اقبال کا اسلوب بدل چکا نئی جہت وقوع پزیر ہو چکی ذرا اس شعر پر غور فرمائیں
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑد ے
اقبال کی عقل و دل پر مکالماتی نظم بہت مقبول ہوئی۔ عقل و عشق کا مناظرہ بھی اقبال کی شاعری میں بیشتر اشعار میں پوری آب و تاب سے ہوتا نظر آتا ہے ۔ فارسی نظموں میں عقل و خرد کو اقبال نے آڑھے ہاتھوں لیا ہے اور یہاں روائتی ناقدین نے اقبال کے حقیقی مباحثے کی روح کو نہ سمجھتے ہوئے بے جا اور بے لاگ تبصرے کئے اور تنقیدی مقالے لکھ چھوڑے۔ اقبال نے ان سب کا مدلل جواب اردو میں عقل کے موضوع پر استدلال سے کام لیتے ہوئے دیا رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں اسی طرح دل کو موضوعِ سخن بناتے
ہوئے اقبال فرماتے ہیں ۔
عشق کے دام میں یہ پھنس کر رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
یہاں سے اقبال کی شاعری میں دل کے موضوع کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی ۔ فلسفہ خودی، دل کی حقیقت شناسی، حصولِ مقصدِحیات،جیسے تصورات نے اقبال کی شاعری میں اپنی منفرد جگہ بنا لی۔اقبال کے دل کے موضوع کے حق میں مضبوط دلائل میں سے چند دلائل یہ تھے کہ دل ہی خدا کی طرف لے کر جانے والے راستے کا درست تعین کرتا ہے، دل ہی آبیاریءِ درد و فغان کا سامان مہیا کرتا ہے ۔دل ہی لا متناہی تخلیقی قوتوں کا سر چشمہ ہے۔اور بصیرت کا واحد صاف شفاف آئینہ ہے ۔ اقبال اپنے ارد گرد معاشرتی تبدیلی کو بہت شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ قوموں کی ترقی اور تنزلی کی اصل اَساس پر تحقیق کر رہا تھا اور یہ سمجھ چکا تھا کہ لسانی ترقی اور ترویج ہی واحد حل ہے اس قومی تشخص کے بچاؤ کا۔آزاد قوم اور غلام قوم کی تخصیص اسکی لسانی پختگی سے آسانی سے لگائی جا سکتی ہے۔ انگریز ایک اور ترقی یافتہ قوم تھی اس کا ثبوت انگریزی کا بطور زبان مضبوط ہونا تھا۔ یورپ کے ترقی یافتہ ہونے کی دوسری وجہ اس کے شاعروں کا فطرت اور مظاہرِ فطرت کی شاعری کرنا تھا ۔ یاسیت اور مایوسی سے مبّرا شاعری۔اسی اسلوب نے اقبال کو متاثر کیا اور اقبال نے فطرتی مضامین کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا۔ اقبال کے پاس دینِ اسلام میں فطرت کے اصل تعارف کا خزانہ موجود تھا اس لیے انہیں ان موضوعات پر شاعری کرنا نہایت سہل لگا۔ اگرچہ بر صغیر پاک و ہند میں صرف ایک قوم یا ایک سوچ کے افراد نہیں رہتے تھے ہندووں میں بھی ہزاروں اقسام موجود تھیں جو رنگ نسل اور عقائد کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔ دیگر اقلیتوں کے ہاں بھی یہی طبقاتی تفریق موجود تھی۔ البتہ مسلمان وہ واحد قام تھی جو دین حق دین اسلام کی جامعیت کی وجہ سے ایک اساس میں بندھی ہوئی تھی بس اِس قوم کو ضرورت تھی تو ان کے اصلی تشخص کی پہچان کی۔ البتہ فرقہ بندی کے زہر نے مسلمانوں کے عقیدے کی رگوں میں سرایت کر کے ان کو بھی منقسم اور محکوم کر رکھا تھا اور ذہنی غلامی جیسی ذلت کو بھی قبول کیا تھا آغاز میں اقبال کی اجتماعی شخصی ترقی اور قومی آزادی کا اندازا اس مصرع سے لگایا جا سکتا ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
اب اقبال ، لسانی، جغرافیائی، علاقائی، مذہبی، معاشرتی کی تفریق کو مصنوعی اور وقتی تصور کرتے ہوئے وحدت اور اجتماعیت کے تصّور کو اجاگر کرنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے اور عقل و خرد، خودی، عشق، اسرارِ رموز، اور قومیت کے موضوعات پر قلم اٹھایا۔اور مذہبی تفریق کو ایک طرف رکھ کر ، بابا گرونانک، شری رام چندر، حٖضرتِ مسیح ، مشہورو معروف ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ کی تعلمیات اور شخصیت پر بہت سے اشعار لکھے اور خود کو اجتماعیت پسند ثابت کیا۔ اقبال اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے اپنا الگ مقام بنا چکے تھے ۔ مگر اقبال اپنی تشنگی کا تذکرہ کچھ
یوں کرتے ہیں
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال مشرقیت کے علمبرادر اور مشرقی روحانیت کے مبلغ کی حیثیت رکھتے تھے دوسری طرف اقبال کو یورپ میں رہنے وہاں کی تہذیبی اقدار کو جانچنے ، معاشرتی اور معاشی ترقی کا راز جاننے کا بھرپور موقع ملا اور اپنے محققانہ مزاج سے اپنی قوم اپنے لوگوں کے لیے د رست راستے اور حقیقی منزل کا تعین آسان بنایا اس بات کا اظہار درج بالا اشعار میں نہایت خوبصورتی سے کیا گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا جہاں میں مانندِ شمع سوزاں میان محفل گداز ہوجا اقبال کے بدلتے اسلوب نے مسلمانوں میں معاشرتی انحطاط کو ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اقبال نے نظریے، عقیدے، اور سوچ کی شاعری کی اور ادراک کے وہ دروازے کھولے کے شاعری کا مقصد اور معنی و مفہوم ہی تبدیل ہو کر رہ گیا۔اقبال کے ہاں جدّت، وسعت، فلسفہ حیات، تصوف، حکمت پسند اور روحانیت کی بنیاد پر کی گئی تعمیری اور تبلیغی شاعری کا خزانہ موجود تھا۔جس کو اقبال نے اپنی قوم اپنے لوگوں کی ابلاغی صلاحیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سہل، موزوں ، مربوط اور مرصع بنا کر پیش کیا۔ جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر اقبال کی شخصیت کے کسی ایک بھی پہلو کا مکمل احاطہ ایک مختصر مضمون میں ناممکن ہے ۔ تحریر ہزا کو تعارفِ اقبال کی پہلی قسط تصّور کیا جائے۔ زندگی نے وفا کی تو اِس تعارفی سلسے کی دیگر اقساط جلد پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ اقبال کے اس خوبصورت شعر پر آج کی اس تعارفی نشت کو برخاست کرنے کی اجازت
چاہوں گا۔
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوزِ مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اک روز
کتابِ صوفی و ملاکی سادہ اوراقی
خیر اندیش
ڈاکٹر دانش عزیز