غزل
فکر و نظر کی جنگ ہے خود سر کے سامنے
اک سبز انقلاب ہے پتھر کے سامنے
دریا ابل پڑا ہے سمندر کے سامنے
شیشہ گروں کی بھیڑ ہے زر گر کے سامنے
جھوٹا سا ایک وعدۂ فردا بھی ہے بہت
تسکین کے لیے دل مضطر کے سامنے
کوئی دلیل کوئی نہ حجت نہ ہے جواز
اس بد قماش خوئے ستم گر کے سامنے
موسم کی دل فریبی یہ کہتی ہے بار بار
کم تر ہے ان کا حسن بھی منظر کے سامنے
دنیا کیوں اپنے سر کو جھکاتی ہے آج کل
کم مایہ بد خصال تونگر کے سامنے
بسملؔ نہ چھیڑ اہل دول کی بھی کوئی بات
مجھ جیسے اک فقیر قلندر کے سامنے
بسمل اعظمی