loader image

MOJ E SUKHAN

20/04/2025 08:36

*فہمیدہ ریاض کی نظم* *”مقابلۂ حسن” کا نئی تنقید (New Criticism) کے تحت تجزیہ* تحریر: آصف علی آصف (آصف)

*فہمیدہ ریاض کی نظم*
*”مقابلۂ حسن” کا نئی تنقید (New Criticism) کے تحت تجزیہ*
تحریر: آصف علی آصف (آصف)
نیا تنقیدی طریقہ (New Criticism) کسی بھی ادبی متن کا تجزیہ اس کی ہیئت یا داخلی ساخت، زبان، اسلوب اور ادبی پیرایوں پر مرکوز رکھتا ہے بجائے اس کے کہ وہ مصنف کی زندگی، سماجی پس منظر یا تاریخی حالات کو مدنظر رکھے۔ اس نظریے کے مطابق ادب کو خود کفیل اور خود مختار حیثیت میں سمجھا جانا چاہیے اور اس کے معانی متن کے اندر ہی تلاش کیے جانے چاہئیں۔
نظم "مقابلۂ حسن” نئے تنقیدی تجزیے کے لیے ایک عمدہ مثال ہے کیونکہ یہ چند ہی مصرعوں میں ایک گہرے پیغام کو سمو دیتی ہے اور مختلف ادبی حربوں (Literary Devices) کے ذریعے اپنی قوتِ اظہار کو بڑھاتی ہے۔
*۱- نظم کی ہیئت (Form)*
*یہ نظم چھوٹی مگر انتہائی معنی خیز ہے اور اس میں ایک واضح آغاز، درمیانی حصہ اور اختتام ہے۔
*یہ نثری نظم ( prose poem) ہے جس میں کوئی مقررہ بحر ردیف یا قافیہ نہیں لیکن پھر بھی اس کا صوتی آہنگ (Rhythm) مربوط اور جاندار ہے۔
*نظم کے مصرعے مختصر اور چُست (Concise & Compact) ہیں جو نظم کی شدت اور براہ راست اظہار کی قوت کو بڑھاتے ہیں۔
*یہ غیر رسمی گفتگو کا انداز اپناتی ہے جہاں یہ نظم براہ راست قاری یا مردانہ سماج سے خطاب کر رہی ہے۔
*۲۔ موضوع اور متن کی داخلی وحدت (Theme & Unity of Meaning)*
*نئی تنقیدیت کے مطابق ایک اچھی نظم وہ ہوتی ہے جس میں داخلی وحدت (Unity) ہو یعنی اس کا ہر عنصر اس کے مرکزی خیال کو مضبوط کرے۔
*یہ نظم عورت کے جسمانی حسن کے روایتی معیارات کو چیلنج کرتی ہے اور یہ بات آغاز سے اختتام تک پوری شدت کے ساتھ قائم رہتی ہے۔
*یہ نظم دو متضاد تصورات کا سامنا کراتی ہے: عورت کی جسمانی شناخت اور اس کی ذہنی صلاحیت۔
*نظم کے آخری مصرعے میں ایک طنزیہ چیلنج ہے جو اختتام کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔
*۳۔ صوتیات (Phonetics) اور آہنگ (Rhythm & Tone)*
*نظم کا آہنگ سخت، چیلنج دینے والا اور طنزیہ (Sarcastic) ہے۔
*یہاں الفاظ میں ایک خاص ترتیب اور روانی ہے جو نظم کو زبردست صوتی تاثر (Phonetic Effect) عطا کرتی ہے۔
"کولھوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے”
یہاں "بھنور” کا استعمال صوتی تاثر کے لحاظ سے گھومتے، متحرک اور طاقتور الفاظ کو جنم دیتا ہے۔
"پیمائش میری ختم ہو جب، اپنا بھی کوئی عضو ناپو!”
یہاں آخری مصرعے میں سختی، طنز اور ایک چیلنج کا احساس پیدا ہوتا ہے جو نظم کے اثر کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
*۴۔ اہم ادبی حربے (Literary Devices Used)*
*تضاد (Contrast) اور متضاد تصورات*
"کولھوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے، سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر”
یہاں دو متضاد تصورات سامنے آتے ہیں:
عورت کے جسم کی جنسی کشش ("کولھوں میں بھنور”)
اور
عورت کی ذہنی صلاحیت ("سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر”)
یہ تضاد نظم کے بنیادی پیغام کو طاقتور بناتا ہے اور قاری کو اپنی طرف کھینچ کر جھنجھوڑتا ہے۔
*استعارہ (Metaphor)*
*”کولھوں میں بھنور” : عورت کے جسم کے اعضاءِ مخصوصہ کی کشش کو ایک بھنور (Whirlpool) سے تشبیہ دی گئی ہے جو نہ صرف جنسی کشش کی شدت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ یہ ایک "پھنسانے” والی چیز کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔
*”پیمائش” : عورت کو ہمیشہ جسمانی پیمانے پر پرکھنے کے رجحان کا استعارہ ہے جو پدرشاہی رویوں کو نمایاں کرتا ہے۔
*تکرار (Repetition) اور طنزیہ چیلنج*
*”اپنا بھی کوئی عضو ناپو!” : آخری مصرعہ ایک چیلنج کی صورت میں آتا ہے جو نظم کے طنزیہ آہنگ کو مضبوط بناتا ہے۔
*یہ مصرعہ اس پوری نظم کا سب سے طاقتور نکتہ ہے جہاں جو مردوں کے دوہرے معیار کو واضح کر کے الٹا انہی پر لاگو کر رہا ہے۔
*ایہام (Ambiguity) اور کئی سطحوں پر معنی*
*”تھا پارۂ دل بھی زیر پستاں، لیکن مرا مول ہے جو ان پر”
یہاں دوہرا مطلب موجود ہے:
عورت محض جسمانی سطح پر قیمتی سمجھی جاتی ہے۔
عورت کی محبت اور جذبات بھی "جسم” کے تابع کر دیے گئے ہیں-
یہ ایہام قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور نظم کو مزید تہہ دار بناتا ہے۔
*۵- داخلی کشمکش اور نظم کی تکمیل (Internal Tension & Resolution)*
*نئی تنقیدیت کے مطابق ایک اچھی نظم وہ ہوتی ہے جس میں اندرونی کشمکش (Tension) ہو جو نظم کے اختتام پر مکمل ہو جائے۔
یہاں کشمکش عورت کی جسمانی و ذہنی شناخت کے درمیان ہے۔نظم کا آغاز اس تناؤ سے ہوتا ہے کہ عورت کو کیسے "محض جسم” کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اختتام پر عورت یہ پیمائش مردوں پر بھی لاگو کرنے کا چیلنج دے کر اس کشمکش کو مکمل کر دیتی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو اس نظم کو ایک مکمل، جاندار اور خود کفیل فن پارہ بناتی ہے۔
*۶- نظم کی داخلی خودمختاری (Autonomy of the Text)*
*نیا تنقیدیت میں نظم کو کسی بیرونی حوالوں، مصنف کی زندگی، یا سماجی پس منظر سے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
*یہ نظم مکمل طور پر "متن کے اندر” (Intrinsic) اپنے معانی قائم کرتی ہے۔
*اس کا ہر لفظ، ہر ترکیب اور ہر مصرع نظم کے مرکزی پیغام کو مضبوط بناتا ہے جو اس کی فنی خوبی کا ثبوت ہے۔
*۷- پیکر نگاری (Imagery)*
نظم "مقابلۂ حسن” میں پیکر نگاری (Imagery) کا نہایت مؤثر استعمال کیا گیا ہے جو نظم کے موضوع کو زیادہ واضح اور اثر انگیز بناتا ہے۔ "کولھوں میں بھنور” ایک طاقتور بصری (Visual) اور حرکی (Kinetic) استعارہ ہے جو عورت کے اعضاء مخصوصہ کی کشش کو بھنوروں سے تشبیہ دے کر جنسی معیارات کے خلاف طنزیہ احتجاج کرتا ہے۔ "سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر” ایک تجریدی (Abstract) اور فکری (Intellectual) پیکر ہے جو عورت کی ذہانت اور جستجو کو اجاگر کرتا ہے۔ "تھا پارۂ دل بھی زیر پستاں” میں جذباتی اور جسمانی پیکر (Emotional & Physical Imagery) کو یکجا کیا گیا ہے جو عورت کی محبت اور جذبات کو اس کے جسم کے تابع کرنے والے سماجی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ نظم کا آخری مصرع "اپنا بھی کوئی عضو ناپو!” ایک صوتی (Auditory) اور لمسی (Tactile) پیکر تخلیق کرتا ہے جو مرد قاری کو ایک شدید اور چبھتے ہوئے چیلنج کا احساس دلاتا ہے۔ ان تمام تصویری استعارات کی بدولت یہ نظم صرف ایک فکری بیان نہیں رہتی بلکہ ایک بصری، جسمانی اور جذباتی تجربہ بھی بن جاتی ہے، جو قاری کے ذہن میں دیرپا تاثر چھوڑتی ہے۔
*۸-کیا یہ نظم نئی تنقیدیت کے اصولوں پر پوری اترتی ہے؟*
*جی ہاں، یہ نظم ایک بہترین فن پارہ ہے کیونکہ:
اس میں داخلی وحدت (Unity) موجود ہے۔
اس میں واضح کشمکش (Tension) ہے جو آخر میں حل ہوتی ہے۔
اس میں زبان، صوتیات اور استعاروں کا عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔
*پیکرنگاری بہت طاقتور، جاندار اور شدیدطنزیہ ہے۔
یہ اپنے معنی کے لیے کسی بیرونی وضاحت یا تاریخی پس منظر کی محتاج نہیں۔
*نتیجہ:*
یہ نظم نئی تنقید کے اصولوں سے پرکھنے پر ایک اعلی فن پارہ (Well-Structured Poem) ہے جس میں ہر لفظ، ہر ترکیب اور ہر آہنگ اس کے مرکزی پیغام کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کی صوتیات، پیکر نگاری، تضاد، اور طنز اسے ایک طاقتور نظم بناتے ہیں جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
آصف علی آصف
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین

بیگماتِ اودھ کے خطوط

مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی شیدا بیگم کا خط بنام جان عالم شہ ہند رشک قمر جان عالمسفر سے