غزل
قاصد تو لیے جاتا ہے پیغام ہمارا
پر ڈرتے ہوئے لے جو وہاں نام ہمارا
کیا تاب ہے جو سامنے ٹھہرے کوئی اس کے
آفت ہے غضب ہے وہ دل آرام ہمارا
آغاز نے تو عشق کے یہ حال دکھایا
اب دیکھیے کیا ہووے گا انجام ہمارا
اے چرخ اسی طرح تو گردش میں رہے گا
پر تجھ سے نہ نکلے گا کبھو کام ہمارا
اے پیر مغاں دیکھیو آصفؔ یہ کہے ہے
خالی نہ رہے مے سے سدا جام ہمارا
آصف الدولہ