غزل
قافلے یادوں کے یوں دل میں مرے در آئے
جیسے پردیس سے برسوں میں کوئی گھر آئے
وصل کی راہ میں ہے ہجر کا صحرائے عظیم
کیسے ملنے کبھی دریا سے سمندر آئے
آتش صحن چمن صرف چمن تک نہ رہی
چند شعلے مرے دامن پہ بھی اڑ کر آئے
قرض احباب کا اس وقت کیا میں نے ادا
جب مرے سامنے وہ تان کے خنجر آئے
ظلم و بیداد کا سورج ہے سوا نیزے پر
کیوں نہ اس دور میں بھی کوئی پیمبر آئے
ان سے اتنا بھی تعلق نہ بڑھا تو اے دل
مجھ سے ملنے کا کوئی پل نہ میسر آئے
دل میں شاداںؔ مرے آباد ہے وہ غنچہ دہن
جس کی ہر سانس سے خوشبوئے گل تر آئے
شاداں بدایونی