قبلۂ دل کعبۂ جاں اور ہے
سجدہ گاہ اہل عرفاں اور ہے
ہو کے خوش کٹواتے ہیں اپنے گلے
عاشقوں کی عید قرباں اور ہے
روز و شب یاں ایک سی ہے روشنی
دل کے داغوں کا چراغاں اور ہے
خار دکھلاتی ہے پھولوں کی بہار
بلبلو اپنا گلستاں اور ہے
قید میں آرام آزادی وبال
ہم گرفتاروں کا زنداں اور ہے
بحر الفت میں نہیں کشتی کا کام
نوح سے کہہ دو یہ طوفاں اور ہے
کس کا اندیشہ ہے برق و سیل سے
اپنے خرمن کا نگہباں اور ہے
درد وہ دل میں وہ سینہ پر ہے داغ
جس کا مرہم جس کا درماں اور ہے
کعبہ رو محراب ابرو اے امیرؔ
اپنی طاعت اپنا ایماں اور ہے
امیر مینائی